• متفرقات >> تاریخ و سوانح

    سوال نمبر: 7475

    عنوان:

    آپ حضرات ہمیشہ مجھ جیسے نوجوانوں کی ہدایت اور رہنمائی کا ذریعہ رہے ہیں۔ فتنہ کے زمانہ میں آپ اسلام کے صحیح نمائندے ہیں۔ برائے کرم میری مدد کریں۔ میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے بارے میں بہت زیادہ الجھن میں مبتلا ہوگیا ہوں․․․میں اپنا سوال واضح کرتا ہوں۔ ۔۔۔۔؟؟؟

    سوال:

    آپ حضرات ہمیشہ مجھ جیسے نوجوانوں کی ہدایت اور رہنمائی کا ذریعہ رہے ہیں۔ فتنہ کے زمانہ میں آپ اسلام کے صحیح نمائندے ہیں۔ برائے کرم میری مدد کریں۔ میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے بارے میں بہت زیادہ الجھن میں مبتلا ہوگیا ہوں․․․میں اپنا سوال واضح کرتا ہوں۔

    میرا شک اس وقت شروع ہوا جب ایک پروگرام میں کسی نے ڈاکٹر ذاکر نائک سے یزید اور کربلا کی لڑائی کے بارے میں پوچھا۔ اس نے یزید کے لیے رضی اللہ کا لفظ استعمال کیا اور کربلا کوایک سیاسی جنگ قرار دیا۔ میں حیرت میں پڑگیا کیوں کہ ہم یہ سنتے رہے ہیں کہ یزید ملعون ہے اوربہت ظالم شخص تھا اور کربلا کی لڑائی حق و باطل کی لڑائی تھی۔ یہی رد عمل مسلمانوں میں اس کے بارے میں اٹھا۔لوگوں نے کانفرنسوں میں اس کی ملامت کرنی شروع کی۔ انھوں نے کہا کہ ذاکر نائک تقابلی ادیان کا طالب علم ہے تاریخ اوراسلام کا اچھا عالم نہیں ہے۔ میں نے بھی یہی سوچناشروع کیا لیکن میرے دل نے یہ سوچناشروع کیا کہ کیسے کوئی شخص جو کہ تقابل ادیان میں سند کی حیثیت رکھتا ہے اپنے مذہب میں اچھی معلومات نہ رکھتا ہو۔ میری الجھن بڑھی۔ میں نے اس مضمون پر ریسرچ کرنے کا فیصلہ کیااورمیں نے اس مضمون پر مختلف خیال اور را ئے کی بہت ساری کتابیں پڑھیں ۔ پہلی کتاب جو میں نے پڑھی اس کا نام خلافت و ملوکت (کسی نے مجھ کو اس کا مشورہ دیاتھا) مصنفہ مولانا مودودی تھی۔ اوراس نتیجہ پر پہنچا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور یزید دونوں ایک ہی صلاحیت کے انسان تھے اورانھوں نے واقعی اسلام کے رتبہ کو کم کیااورحضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اسلام کے صحیح دفاع کرنے والے تھے۔ اس کے کچھ دنوں کے بعدکسی نے مجھے خلافت معاویہ و یزید پڑھنے کا مشورہ دیا جس کو محمود احمد عباسی نے لکھا ہے۔ اس کتاب نے مجھ کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اسلام کے اصل دفاع کرنے والے تھے اور یزید نیک شخص تھا۔ دوسری جانب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کااورحضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا نظریہ درست نہیں تھا۔ میری الجھن دوگنی ہوگئی۔ پہلے تو میں صرف حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور یزید کے بارے میں الجھن میں تھا اب حضرت علی رضی اللہ تعا لی عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں بھی شبہ ہوگیا۔ میں بہت دنوں سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں شیعوں کا نظریہ بھی تلاش کررہا تھا کہ اچانک ایک نیا اختلاف شروع ہوگیا۔ جب ڈاکٹر اسرار احمد نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں شراب کی ممانعت کے بارے میں حدیث پیش کی۔ اسی طرح کا سخت رد عمل قوم میں دیکھا گیا۔ میں نے ڈاکٹر طاہر القادری کی تقاریر بھی سنیں اس کے بارے میں بے چینی بڑھ گئی کیوں کہ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی مضبوط دلیل کے ساتھ ایک مافوق الفطرت شخصیت کے طور پر پیش کیا۔ میں صحابہ کے کردار کے بارے میں مکمل طورپر شک میں پڑگیا ہوں ۔کون صحیح ہے، کون غلط ہے، کس کی اقتداء کریں اور کس کی نہ کریں، کس کو خوش رکھیں، کس کا انکار کریں؟ حضرت اس معاملہ میں میری رہنمائی فرماویں۔ میں آپ کا بہت زیادہ مشکور ہوں گا۔

    جواب نمبر: 7475

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1877=1478/ ھ

     

    آپ نے الجھن میں مبتلا ہونے کا راستہ اختیار کرلیا ہے اب سلجھاوٴ کا راستہ اختیار کرلیجیے، جو کچھ اب تک دیکھا یا سنا وہ زیادہ تر تاریخی مواد سے لوگوں نے نقل کیا ہے، اور اس میں بھي پہلے سے اپنے اپنے اختیار کردہ نظریات کو ملحوظ رکھ کر حضراتِ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ زندگیوں کو طشت ازبام کرنے کی سعی کی ہے، اسی لیے بہت سے لوگوں نے بہت سے مواقع میں سخت ٹھوکر کھائی ہے، آپ کے لیے عافیت کا راستہ یہ ہے کہ جو کچھ اب تک دیکھا سنا سب سے صرف نظر کرلیجیے اور قرآن مقدس نیز حدیث شریف میں جو مناقب وفضائل حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے وارد ہوئے ہیں، صرف اور صرف ان کو ملاحظہ کیجیے اور آپ کے حق میں بہت سہل صورت یہ ہے کہ فضائل اعمال کے حصہ اول میں پہلا رسالہ ?حکایاتِ صحابہ? ہے اُس (حکایات صحابہ) کے اخیر میں بعنوان ?خاتمہ صحابہٴ کرام کے ساتھ برتاوٴ اور ان کے اجمالی فضائل? ایک چھوٹا سا مضمون ہے اس مضمون کو آپ بہت ٹھہر ٹھہر کر ایک ایک حرف سمجھ کر کم ازکم اکیس مرتبہ مطالعہ کریں، اس کے بعد آپ کے ذہن میں حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متعلق جو اشکال رہے اس کو لکھیں، تب ان شاء اللہ تفصیل سے اس کا جواب لکھ دیا جائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند