• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 62050

    عنوان: دوران حج ایک اہم طواف طواف زیات ہے جو حج کا ایک رکن ہے اگر کوئی شخص یہ طواف بارہ ذی الحجہ تک نہ کرسکے تو اس کی بیوی اس پر حلال نہیں ہوگی جب تک یہ رکن ادا نہ کرلے ، خواہ اس میں کتنی ہی طویل مدت کیوں نہ گذر جائے۔

    سوال: دوران حج ایک اہم طواف طواف زیات ہے جو حج کا ایک رکن ہے اگر کوئی شخص یہ طواف بارہ ذی الحجہ تک نہ کرسکے تو اس کی بیوی اس پر حلال نہیں ہوگی جب تک یہ رکن ادا نہ کرلے ، خواہ اس میں کتنی ہی طویل مدت کیوں نہ گذر جائے۔ سوال یہ ہے کہ ایک شخص بارہ ذی الحجہ تک طواف زیارت نہیں کرسکا تو: (۱) کیا وہ اپنے ملک واپس آنے سے پہلے پہلے طواف زیارت کرلے تو کیا یہ ادا ہوجائے گا؟ (۲) کیا وہ دم دیدے تو یہ معاف ہوجائے گا اور ادا مانا جائے گا؟ (۳) اگر وہ اپنے ملک میں آگیا، اور س نے نہ تو دم دیا اور نہ ہی تاخیر کے ساتھ طواف ادا کیا اور اس کے پاس اب اتنا پیسہ بھی نہیں کہ وہ دوبارہ مکہ جاسکتا ہے تو ایسی صورت میں اس کی بیوی اس پر کیسے حلال ہوگی؟ بیوی اپنی نفساتی خواہشات کیسے پوری کرے گی؟ (۴) کیا ایسی صورت میں بیوی کو طلاق دینی ہوگی تاکہ وہ دوسرا نکاح کرسکے؟ (۵) کیا ایسا شخص اپنی نفسانی خواہشات پوری کرنے کے لیے خود دوسرا نکاح کرسکتاہے؟ یہ بہت پیچیدہ مسئلہ ہے ۔ براہ کرم، تفصیل سے جواب دیں۔جزاک اللہ ۔

    جواب نمبر: 62050

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 61-182/N=3/1437-U (۱): جی ہاں! یہ شخص اگر اپنے ملک واپسی سے پہلے طواف زیارت کرلے تو طواف زیارت ادا ہوجائے گا، البتہ اگر اس نے ۱۲/ ذی الحجہ تک بلا عذر شرعی طواف زیارت موٴخر کیا تو اس پر ایک دم واجب ہوگا، نیز گنہگار بھی ہوگا، اور اگر یہ تاخیر کسی شرعی عذر کی بنا پر ہوئی، مثلاً سخت ترین بیمار ہوگیا یا عورت حائضہ ہوگئی اور ۱۲/ ذی الحجہ تک وہ عذر قائم رہا تو یہ تاخیر معاف ہوگی اور اس صورت میں کوئی دم وغیرہ واجب نہ ہوگا، قال فی الدر (مع الرد، کتاب الحج۳: ط مکتبة زکریا دیوبند): ویمتد وقتہ إلی آخر العمر، ……فإن أخرہ عنھا أي: أیام النحر ولیالیھا منھا کرہ تحریماً ووجب دم لترک الواجب، وھذا عند الإمکان، فلو طھرت الحائض إن قدر أربعة أشواط ولم تفعل لزمہ دم وإلا لا اھ وقال في غنیة الناسک (أول باب الجنایات ص ۱۲۸): إلا فیما وردبہ النص وھو ترک الوقوف بمزدلفة لخوف الزحام أو الضعف وتأخیر طواف الزیارة من أیامہ لحیض أو نفاس أو حبس أو مرض ولم یوجد لہ حامل أو لم یتحمل الحمل الخ۔ (۲): طواف زیارت کرنا ہی ضروری ہے، محض دم دینا کافی نہیں؛ کیوں کہ طواف زیارت رکن ہے اور کوئی چیز رکن کا بدل نہیں ہوسکتی، ولا یجزیہ الدم ولا یقوم الدم مقام الرکن (البحر العمیق ص ۱۸۳۳)۔ (۳، ۴): آپ کا یہ سوال نہایت اہم ہے اور اس میں مختلف صورتیں ہیں جو حسب ذیل ہیں: پہلی صورت: شخص مذکور نے طواف زیارت تو نہیں کیا، لیکن وقوف عرفہ کے بعد کوئی بھی طواف کیا ہے، مثلاً طواف وداع، یا عام نفلی طواف یا مجموعی طور پر کم از کم چار چکر (ساڑھے تین سے زائد چکر) طواف کیا تو اس صورت میں یہ پورا طواف یا مجموعی طور پر چار چکر کا طواف طواف زیارت شمار ہوجائے گا، البتہ اگر اس نے صرف طواف وداع کیا تو چوں کہ اس صورت میں طواف وداع کو طواف زیارت قرار دینے کی وجہ سے طواف وداع ترک ہواجو واجب ہے، پس ایک دم واجب ہوگا، اور اگر مجموعی طور پر صرف چار چکر طواف کیا ہے تو طواف زیارت کے جو چکر رہ گئے، ان کی وجہ سے بھی ایک دم واجب ہوگا، اور اگر یہ طواف یا مجموعی طور پر صرف چار چکر ۱۲/ ذی الحجہ کے بعد ہوئے ہیں اور یہ تاخیر عذر شرعی کے بغیر ہوئی ہے تو تاخیر کی وجہ سے بھی ایک دم دینا ہوگا۔ بہر حال اس صورت میں مکہ مکرمہ جاکر طواف زیارت یا طواف وداع ادا کرنے کی ضرورت نہیں، صرف حدود حرم میں دم کا جانور ذبح کرادینا کافی ہے اور بیوی حلال ہے، اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرسکتے ہیں۔ اور اگر شخص مذکور نے وقوف عرفہ کے بعد کوئی بھی طواف نہیں کیا، نیز مجموعی طور پر کم از کم چار چکر (ساڑھے تین چکر سے زائد) کا بھی کوئی طواف نہیں کیا اور اسی حالت میں وہ اپنے ملک واپس آگیا تو اس صورت میں یہ شخص عورت (بیوی) کے حق میں ابھی بھی احرام میں ہے؛ لہٰذا یہ شخص طواف زیارت سے پہلے جتنی بار بیوی سے جنسی تعلق قائم کرے گا، اس پر ایک دم واجب ہوجائے گا، البتہ اگر ایک مجلس میں متعدد بار جماع کیا تو صرف ایک ہی دم واجب ہوگا، پس اس شخص کو چاہئے کہ جلد از جلد پیسوں کا نظم کرکے مکہ مکرمہ جائے اور طواف زیارت کرکے آئے۔ اور اگر مکہ مکرمہ جانے کے لیے نقد پیسوں کا نظم نہ ہو تو کسی سے قرض لے لے یا اپنی مملوکہ کوئی چیز فروخت کردے مثلاً زراعت کی زمین کا کچھ حصہ بیچ دے یا کوئی زائد پلاٹ ہو، وہ فروخت کردے، غرضیکہ کسی طرح بھی پیسوں کا نظم کرلے اور مکہ مکرمہ جاکر طوا ف زیارت کرکے آجائے اور حسب اصول جو دم واجب ہوں وہ بھی ادا کردے۔ نوٹ:۔ طواف زیارت سے پہلے بیوی سے پہلی بار جو جماع کرے گا، اس سے بعض علما کے نزدیک بدنہ (اونٹ) واجب ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک بکری، البتہ راجح بکری کا وجوب ہے، اور اس کے بعد بیوی سے جتنی بار جماع کرے گا، اس سے بالاتفاق صرف بکری واجب ہوگی، بدنہ واجب نہ ہوگا۔ اور اگر شخص مذکور کے پاس کسی طرح بھی سفر خرچ کا نظم نہ ہوسکے، نیز اس کے پاس ضرورت سے زائد فروخت کرنے کی کوئی زمین وغیرہ بھی نہ ہو تو بیوی سے جب جماع کرے تو احرام چھوڑنے اور ختم کرنے کی نیت سے کرے، اس طرح وہ اگرچہ احرام سے نہیں نکلے گا، لیکن بیوی سے جماع کرنے کی صورت میں اس پر صرف ایک ہی دم واجب رہے گا، متعدد دم واجب نہ ہوں گے، جس کی بنا پر اسے بیوی کو طلاق وغیرہ دینے کی کوئی ضرورت نہ ہوگی، البتہ جلد از جلد سفر خرچ کا نظم کرکے مکہ مکرمہ جاکر طواف زیارت ادا کرنے کی کوشش وفکر کرے تاکہ حج مکمل ہوجائے اور بیوی سے جماع وغیرہ کی صورت میں کسی طرح کی کوئی حرمت نہ رہے۔ قال في مجمع الأنھر (۱: ۴۳۵ ط دار الکتب العلمیة بیروت): (ولو ترک طواف الرکن أو أربعة منہ بقي محرماً أبداً) وإن رجع إلی أھلہ (حتی یطوفھا) أي: یقع أربعة منہ بذلک الإحرام؛ لأنہ رکن فلا یجوز عنہ بدل اھ وقال فی الدر المنتقی (مع المجمع ۱: ۴۳۵، ۴۳۶): (ولو ترک طواف الرکن أو أربعة منہ بقي محرماً أبداً) في حق النساء وإن رجع إلی أھلہ (حتی یطوفھا) بذلک الإحرام فکلما جامع لزمہ دم إذا تعددت المجالس إلا أن یقصد رفض الإحرام بالجماع کما فی الفتح، وذلک لأنہ رکن فلا یجوز عنہ بدل، …قلت: وھذا إذا لم یطف بعد الوقوف غیرہ حتی لو طاف للصدر انتقل إلی الفرض ما یکملہ، ثم إن بقي أقل الصدر فصدقة وإلا فدم کما حررتہ في شرح التنویر، والحاصل أن أي طواف حصل بعد الوقوف کان للفرض کما فی الشرنبلالي وغیرہا فلیحفظ اھ وانظر الدر والرد (۳: ۵۸۴، ۵۸۶ ط مکتبة زکریا دیوبند) والبحر العمیق (ص ۱۸۳۲- ۱۸۳۷) أیضاً۔ (۵): شخص مذکور کے لیے عورت کے حلال ہونے کا وہی طریقہ ہے جو اوپر ذکر کیا گیا، دوسرا نکاح کرنے کے بعد جو بیوی آئے گی، اس سے بھی درج بالا طریقہ اپنائے بغیر جنسی تعلق قائم کرنا جائز نہ ہوگا؛ کیوں کہ طواف زیارت سے پہلے موجودہ بیوی کی طرح وہ بیوی بھی حرام ہوتی ہے، جس سے قربانی اور حلق کے بعد طواف زیارت سے پہلے نکاح کیا جائے؛ اس لیے دوسرا نکاح مسئلہ کا حل نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند