عبادات >> احکام میت
سوال نمبر: 62316
جواب نمبر: 62316
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 130-145/Sn=2/1437-U میت کی وفات کے اول روز اسی طرح تیسرے روز کھانا تیار کرکے لوگوں کو جمع کرکے کھلانا، نیز چالیس روز تک مسجد میں کھانا بھیجنا، پھر چالیسویں روز اور سال گزرنے پر کھانا تیار کرنا یہ سب بدعت ورسوم ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کے زمانے میں ا ن کا کوئی ثبوت نہیں ملتا؛ اس لیے ان سب رسوم وبدعات سے اجتناب کرنا ضروری ہے، اگر ایصالِ ثواب مقصود ہے تو اس کا عمدہ طریقہ یہ ہے کہ بدون تعین یوم ووقت کے لوجہ اللہ نقد یا کپڑے یا کھانا فقراء کو صدقہ کردے اور خفیةً نقد دینا سب سے بہتر ہے، کہ اس میں ریا نہ ہوگی اور ضرورت مند اس سے اپنی جملہ حاجات رفع کرسکتا ہے؛ لیکن یہ بات واضح رہے کہ بہ طور صدقہ کھانا یا نقد دینا ترکہٴ میت سے اسی وقت جائز ہے جب تمام ورثاء دلی خوشی سے اس کی اجازت دیں؛ لیکن ورثاء میں ا گر کوئی نابالغ ہے تو اس کی اجازت معتبر نہیں ہے، ایسی صورت میں بالغ ورثاء اپنے مال سے کریں، نابالغ کے حصہ سے اس میں صرف نہ کریں، ان کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے، رد المحتار علی الدر المختار میں ہے: ویکرہ اتخاذ الضیافة من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع فی السرور لا فی الشرور، وہی بدعة مستقبحة وروی الإمام أحمد وابن ماجہ بإسناد صحیح عن جریر بن عبد اللہ قال " کنا نعد الاجتماع إلی أہل المیت وصنعہم الطعام من النیاحة " اہ․ وفی البزازیة: ویکرہ اتخاذ الطعام فی الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر فی المواسم، واتخاذ الدعوة لقراء ة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراء ة سورة الأنعام أو الإخلاص․․․ الخ (شامی، ج:۳، ص: ۱۴۸، باب صلاة الجنازة، زکریا) نیز دیکھیں: فتاوی دارالعلوم (۳) بہ طور رسم کی جانے والی دعوتوں میں کسی کو شرکت نہ کرنی چاہیے؛ باقی اگر بطور رسم نہ ہو؛ بلکہ دن وغیرہ کی تعیین کے بغیر بغرض ایصالِ ثواب بہ طور ”صدقہ“ کھلایا جائے تو اسے بھی کھانے سے خصوصاً اغنیاء اور علماء کو احتیاط کرنا چاہیے؛ اس لیے یہ کھانا اماتتِ قلب کا موجب ہوتا ہے۔ (فتاوی رشیدیہ، ص: ۱۲۴ تا ۱۲۳ و۲۷۸، ط: دارالاشاعت، کراچی، نیز فتاوی دارالعلوم، ۱۸/ ۴۸۳)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند