• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 14059

    عنوان:

    میرا سوال یہ ہے کہ گاہک دکان دا رسے کچھ مدت کے ادھار پر کپڑا خریدنا چاہتاہے تو کیا اس کپڑے کو بیچ کر کچھ رقم حاصل کرلے اور ان پیسوں سے اپنی ضرورت پوری کرلے؟ دکاندار گاہک کو کہتاہے کہ یہ کپڑا پانچ سو روپیہ کا ہے (جب کہ وہ کپڑا بازار میں عام طور پر ڈھائی سو روپیہ میں دستیاب ہے) لیکن سودا ادھار ہونے کی وجہ سے دکان دار اس کپڑے کو پانچ سو روپیہ میں فروخت کردیتا ہے ۔اس کے بعد وہی گاہک اسی دکاندار کو کہتا ہے کہ اب یہ کپڑا دو سو پچاس روپیہ میں خرید لو او ردکاندار اس کپڑے کو خرید لیتا ہے اور ڈھائی سو روپیہ گاہک کو ادا کردیتا ہے۔ کیا یہ خریدو فروخت صحیح ہے یا یہ سود ہے؟ اور اگرصحیح نہیں ہے تو کس طرح ؟ (۲)بازار میں موٹر سائیکل پچاس ہزار میں دستیاب ہے۔ گاہک دکاندار سے کہتاہے کہ میں یہ رقم یک مشت ادا نہیں کرسکتا، میں اس کی طے شدہ قیمت ایک ساتھ میں ادا کروں گا۔ دکاندار وہی موٹر سائیکل جو پچاس ہزار روپیہ میں ہے گاہک کو ایک لاکھ روپیہ میں فروخت کردیتا ہے اور پچیس ہزارروپیہ بطور ایڈوانس لے کر بقیہ رقم کی پندرہ قسط (پندرہ ہزار روپیہ ماہانہ) بنا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ دکاندار شرط رکھتا ہے کہ اگر ایک سے زیادہ قسط مقررہ وقت پر جمع نہ کرائی گئی تو وہ موٹر سائیکل اور جمع کرائی گئی تمام رقم (ایڈوانس او رقسطوں سمیت) ضبط کرلے گا۔ ..........

    سوال:

    میرا سوال یہ ہے کہ گاہک دکان دا رسے کچھ مدت کے ادھار پر کپڑا خریدنا چاہتاہے تو کیا اس کپڑے کو بیچ کر کچھ رقم حاصل کرلے اور ان پیسوں سے اپنی ضرورت پوری کرلے؟ دکاندار گاہک کو کہتاہے کہ یہ کپڑا پانچ سو روپیہ کا ہے (جب کہ وہ کپڑا بازار میں عام طور پر ڈھائی سو روپیہ میں دستیاب ہے)لیکن سودا ادھار ہونے کی وجہ سے دکان دار اس کپڑے کو پانچ سو روپیہ میں فروخت کردیتا ہے ۔اس کے بعد وہی گاہک اسی دکاندار کو کہتا ہے کہ اب یہ کپڑا دو سو پچاس روپیہ میں خرید لو او ردکاندار اس کپڑے کو خرید لیتا ہے اور ڈھائی سو روپیہ گاہک کو ادا کردیتا ہے۔ کیا یہ خریدو فروخت صحیح ہے یا یہ سود ہے؟ اور اگرصحیح نہیں ہے تو کس طرح ؟(۲)بازار میں موٹر سائیکل پچاس ہزار میں دستیاب ہے۔ گاہک دکاندار سے کہتاہے کہ میں یہ رقم یک مشت ادا نہیں کرسکتا، میں اس کی طے شدہ قیمت ایک ساتھ میں ادا کروں گا۔ دکاندار وہی موٹر سائیکل جو پچاس ہزار روپیہ میں ہے گاہک کو ایک لاکھ روپیہ میں فروخت کردیتا ہے اور پچیس ہزارروپیہ بطور ایڈوانس لے کر بقیہ رقم کی پندرہ قسط (پندرہ ہزار روپیہ ماہانہ) بنا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ دکاندار شرط رکھتا ہے کہ اگر ایک سے زیادہ قسط مقررہ وقت پر جمع نہ کرائی گئی تو وہ موٹر سائیکل اور جمع کرائی گئی تمام رقم (ایڈوانس او رقسطوں سمیت) ضبط کرلے گا۔ گاہک تمام شرطیں مان کر سودا طے کرلیتا ہے۔ کیا یہ خریدو فروخت جائز ہے؟ اور اگر جائز ہے تو کس طرح ؟ یاد رہے کہ یہ سوال آپ سے ہے ، نہ کہ مقامی علمائے کرام سے کیوں کہ آپ اکثر سوالات کے جواب مقامی علماء سے پوچھنے کا مشورہ دیتے ہیں، مجھے اس سوال کا جواب آپ سے ہی چاہیے۔

    جواب نمبر: 14059

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1047=852/ل

     

    (۱) جب تک مشتری مبیع پر اور بائع ثمن پر قبضہ نہ کرلے اس سے پہلے بائع کا مبیع کو کم قیمت پر خریدنا جائزنہیں وفسد شراء ما باع إلخ وفي الشامي: أي لو باع شیئًا وقبضہ المشتري ولم یقبض البائع الثمن فاشتراہ بأقل من الثمن الأول لا یجوز (شامي: ۷/۲۶۷، زکریا دیوبند، باب البیع الفاسد) پس صورت مسئولہ میں کپڑا پانچ سو روپے میں ادھار بیچ کر ڈھائی سو روپے میں خود نقد خرید لینا جائز نہیں۔

    (۲) دوکاندار کا یہ شرط لگادینا کہ اگر ایک قسط مقررہ وقت پر جمع نہ کی گئی تو موٹر سائیکل اور جمع کرائی گئی تمام رقم ضبط کرلی جائے گی، یہ شرط، شرط فاسد ہے، اس لیے بیع و شراء کی مذکورہ بالا صورت درست نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند