• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 68252

    عنوان: بینک سے خرید وفروخت کے معاملے کی ایک صورت؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں، بینک مارکیٹ سے کوئی سامان ۱۰۰ روپے میں خریدتا ہے (اس شکل میں بینک اس سامان کا مالک ہوا)۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ بینک اسی سامان کو کچھ فائدہ رکھ کر یعنی ۱۱۰ روپے میں کسٹمر کو قسطوں پر ادھار بیچ دیتا ہے اور اسکی شکل یہ ہوتی ہے کہ کاغذ پہ تو کسٹمر اس سامان کا مالک ہے لیکن جسمانی طور پہ نہیں۔ اب وہی کسٹمر بینک کے ساتھ ایک دوسرا معاہدہ کرتا ہے جس کی رو سے وہ بینک کو اس کا اختیار دیتا ہے کہ وہ اسی سامان کو نقدا ۹۰ روپے میں بیچ دے ، بینک اپنی اس خدمت کے بدلے تھوڑا کمیشن لیتا ہے ۔ اب بینک فروخت سے حاصل شدہ رقم یعنی ۹۰ روپے اسکے اکاونٹ میں جمع کر دیتا ہے ۔ کیا ایسا معاملہ کرنا درست ہے ؟

    جواب نمبر: 68252

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1362-1438L37=01/1438 اس سلسلے میں درج ذیل امور وضاحت طلب ہیں: (۱) بینک کسٹمر کو جو سامان بیچتا ہے اس میں کسٹمر کی ملکیت تام ہوتی ہے یا نہیں؟ یعنی وہ سامان مکمل کسٹمر کے ضمان او ررسک میں آجاتا ہے یا صرف کاغذی کارروائی ہوتی ہے؟ (۲) بینک ہی کو وکیل بالبیع بنانا ضروری ہے؟ یا کسی اور کو بھی بنایا جاسکتا ہے؟ نیز اگر خود مشتری بیچنا چاہے یا استعمال میں لانا چاہے تو لاسکتا ہے یا نہیں؟ (۳) اگر بینک کو وکیل بالبیع بنانا ضروری ہے تو کیا خریدی ہوئی قیمت سے کم ہی کا وکیل ہوگا یا بینک زائد میں بھی فروخت کرسکتا ہے۔ مذکورہ بالا تنقیح امور کی وضاحت کے بعد دوبارہ استفتاء ارسال کریں پھر ان شاء اللہ جواب دیا جائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند