• >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 156172

    عنوان: جمعہ کے دن عصر كے بعد قبولیت دعا كے سلسلے میں روایات صحیح ہیں؟

    سوال: اسلاف کے نزدیک جمعہ کا دن بہت اہمیت کا حامل تھا بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ: " من استقامت لہ جمعتہ، استقام لہ سائر أسبوعہ" " جس کے لیے جمعہ کا دن درست ہو گیا اس کے ہفتے کے سارے ہی دن درست ہو جائیں گے ۔" جمعہ کے روز بھی عصر کے بعد کا وقت انتہائی قیمتی شمار ہوتا ہے خصوصا اس کی آخری گھڑیاں۔ ابن القیم رحمہ اللہ اس بارے میں کہتے ہیں: " اور یہ (قبولیت کی) گھڑی عصر کے بعد کی آخری گھڑی ہے جس کی تعظیم ساری ملتوں کے لوگ کرتے ہیں۔" (زاد المعاد 384/1) ۱/۹۳۶، موٴسسة الرسالة۔ مفضل بن فضالة جب جمعہ کے دن نماز عصر پڑھ لیتے تو مسجد کے کسی خالی کونے میں تنہا بیٹھ جاتے اور مسلسل دعائیں کرتے رہتے یہاں تک کہ سورج غروب ہو جاتا۔ (اخبار القضاة ص۶۴۱) طاووس بن کیسان جب جمعہ کے روز عصر کی نماز ادا کر لیتے تو قبلہ کی جانب ہو کر بیٹھ جاتے اور مغرب تک کسی سے بھی کوئی بات نہ کرتے (گویا یہ سارا وقت مسلسل دعا میں گزارتے ۔) (تاریخ واسط ص۱۸۶) سعید بن جبیر جب جمعہ کے روز عصر کی نماز پڑھ لیتے تو مغرب تک وہ کسی سے کوئی بات نہ کرتے ۔ یعنی وہ دعا کرنے میں ہی مشغول رہتے ۔ (زاد المعاد 382/1 ص۳۹۴) صالحین میں سے کسی کا کہنا ہے کہ: " میں نے اللہ سبحانہ و تعالی سے جمعہ کی عصر اور مغرب کے درمیان جو بھی دعا کی اللہ سبحانہ و تعالی نے اسے قبولیت سے نوازا حتی کہ مجھے اپنے رب سے حیا آنے لگی۔" ابن عساکر نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ: "صلت بن بسطام بینائی سے محروم ہو گئے تو ان کے بھائی ان کے لیے جمعہ کے دن عصر کے وقت دعائیں کرنے بیٹھ گئے پھر مغرب سے پہلے انہیں ایک چھینک آئی جس کے بعد ان کی بینائی لوٹ آئی۔" (تاریخ دمشق) کیا یہ روایات درست ہیں؟

    جواب نمبر: 156172

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:188-191/N=3/1439

     متعدد صحیح احادیث میں جمعہ کے دن قبولیت دعا کی گھڑی کا ذکر آیا ہے ، اُس وقت کوئی بھی مسلمان اگر اللہ تعالی سے دعا کرتا ہے تواللہ تعالی اس کی دعا قبول فرماتے ہیں؛ البتہ اس گھڑی کے متعلق مختلف اقوال ہیں اور مشہور دو قول ہیں، اور ان دونوں میں بھی راجح قول یہ ہے کہ یہ گھڑی عصر اور مغرب کے درمیان رہتی ہے اور بعض نے فرمایا:یہ گھڑی غروب آفتاب سے کچھ پہلے ہوتی ہے؛ اس لیے بہت سے سلف صالحین جمعہ کے دن عصر سے مغرب تک دعاوٴں میں مشغول رہتے تھے اور بعض مغرب سے کچھ پہلے دعا کا اہتمام فرماتے تھے، آپ نے اس سلسلہ میں جو مختلف با حوالہ اقوال اور واقعات نقل فرمارہے ہیں، ان میں کچھ استبعاد نہیں ہے، میں نے اکثر اقوال کی مراجعت کی ہے اور انھیں صحیح پایا ہے؛ اس لیے جمعہ کے دن عصر سے مغرب تک یا مغرب سے کچھ پہلے دعاوٴں کا اہتمام کرنا چاہیے؛ البتہ ہر شخص انفرادی طور پر دعا کا اہتمام کرے، اجتماعی دعا کا اہتمام بالکل نہ کیا جائے ؛ کیوں کہ اس موقع پر اجتماعی دعا ثابت نہیں اور شدہ شدہ یہ چیز آئندہ بدعت ہوجائے گی؛ اس لیے اس سے احتراز چاہیے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند