• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 151525

    عنوان: کیا صحیح احادیث صرف بخاری میں ہیں؟

    سوال: حضرت! بخاری شریف قرآن کے بعد سب سے افضل ہے۔ ایک شخص مجھے کچھ احادیث دکھانے کے لیے ایک کتاب لایا میں نے ان سے کہا کہ مجھے بخاری شریف کی حدیث دیکھنی ہے تو وہ اس انداز میں بولے (بخاری وخاری سب اسی میں ہے) استغفر اللہ، تو اس شخص پر کیا حکم ہے؟ جو اس طرح بول دے۔ اور کیا امام بخاری کو ہم رضی اللہ تعالی عنہ بول سکتے ہیں؟ اگرچھ وہ صحابی نہیں ہیں۔ کیا یہ لقب صرف اور صرف صحابی کے لیے استعمال ہوتا ہے؟

    جواب نمبر: 151525

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 950-944/N=9/1438

     

    (۱): یہ بات صحیح ہے کہ صحیح بخاری شریف مجموعی طور پر تمام کتب حدیث پر فائق ہے؛ لیکن یہ کہنا کہ اس کی ہر ہر حدیث دیگر کتب حدیث کی ہر ہر حدیث سے اعلی وارفع ہے، صحیح نہیں؛ کیوں کہ دیگر بعض کتابوں کی بعض احادیث صحیح بخاری کی احادیث سے بھی اعلی وارفع ہیں ، نیز یہ سمجھنا بھی صحیح نہیں کہ صحیح احادیث صرف صحیح بخاری میں ہیں؛ کیوں کہ دیگر کتابوں میں بھی بے شمار صحیح حدیثیں پائی جاتی ہیں اور خود امام بخاری رحمہ اللہ  نے فرمایا کہ میں نے تمام صحیح حدیثیں اپنی کتاب میں جمع نہیں کی ہیں، بہت سی صحیح احادیث میں نے چھوڑدی ہیں۔ اور احادیث میں اصل اور بنیادی چیز صحت ہے ؛ لہٰذا معتبر کتب حدیث کی احادیث میں صحت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے اور متعلقہ چیزوں پر بہت زیادہ توجہ دینے یا انھیں مقصود بالذات بنانے کی ضرورت نہیں۔ اور آج کل بعض لوگ صرف صحیح بخاری کا نام چاہتے ہیں اور دیگر صحیح احادیث سے بالکل صرف نظر کرتے ہیں جو بالکل غلط طریقہ ہے؛ لہٰذا اگر آپ کے پاس کوئی شخص کچھ احادیث دکھانے کے لیے لایا تھا تو آپ کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ مجھے بخاری شریف کی حدیث دیکھنی ہے ، آپ نے یہ کہہ کر غلط مطالبہ کیا ہے، آپ کو اصل احادیث کی صحت دیکھنی چاہیے تھی، اور احادیث دکھانے والے نے جو جملہ کہا وہ در اصل آپ کے غلط مطالبہ کے رد میں اور اس پر اظہار ناگواری میں کہا ہے؛ لہٰذا آپ آئندہ اس طرح کی بات نہ کہیں؛ کیوں کہ نتیجہ کے اعتبار سے یہ نہایت خطرناک بات ہے اور اس سے دیگر معتبر کتب حدیث کی صحیح احادیث پر حرف آتا ہے۔اللہ تعالی توفیق عطا فرمائیں۔

    قال أبو بکر الإسماعیلي: سمعت من یحکي عن البخاري أنہ قال: لم أخرج في ھذا الکتاب إلا صحیحاً، وما ترکت من الصحیح أکثر (شروط الأئمة الخمسة للحازمي مع شروط الأئمة الستة ص ۶۳، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، ولم یلتزما أیضاً بإخراج جمیع ما یحکم بصحتہ من الأحادیث؛ فإنھما قد صححا أحادیث لیست في کتابیھما کما ینقل الترمذي وغیرہ عن البخاري تصحیح أحادیث لیست عندہ بل فی السنن وغیرھا، وقد ذکرنا من قبل قول البخاري: لم أخرج في ھذا الکتاب إلا صحیحاً وما ترکت من الصحیح أکثر، وقول مسلم: ”لیس کل شیٴ عندي صحیح وضعتہ ھھنا“، وقولہ لابن وارة الحافظ حین عاتبہ علی ھذا الکتاب: إنما أخرجت ھذا من الحدیث الصحیح لیکون مجموعاً عندي وعند من یکتبہ عني فلا یرتاب في صحتھا ولم أقل أن ما سواہ ضعیف (ما تمس إلیہ الحاجة ص ۲۲)،علی أن دعوی أصحیة ما في الکتابین أو أصحیة البخاری علی صحیح مسلم وغیرہ إنما تصح باعتبار الإجمال ومن حیث المجموع دون التفصیل باعتبار حدیث وحدیث صرّح بہ فی التدریب الخ (قواعد في علوم الحدیث، الفصل الثاني في بیان ما یتعلق بالتصحیح والتحسین من قواعد مہمة وأصول،ص: ۶۵-۶۶)۔

    (۲): حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے ساتھ رضی اللہ عنہ کا استعمال درست ہے؛ البتہ بہتر یہ ہے کہ ان کے ساتھ رحمة اللہ علیہ یا رحمہ اللہ استعمال کیا جائے؛ کیوں کہ عرف عام میں رضی اللہ عنہ یا رضی اللہ عنہم صحابہ کرام کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔

    ویستحب الترضي للصحابة والترحم للتابعین ومن بعدھم من العلماء والعباد وسائر الأخیار الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الخنثی، مسائل شتی، ۱۰: ۴۸۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند