عبادات >> ذبیحہ وقربانی
سوال نمبر: 43048
جواب نمبر: 43048
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 73-73/M=2/1434 استدلال اس طور پر ہے کہ قربانی کا عمل خالص ایک قربت ہے جس میں تجزی نہیں ہے، اس لیے قربانی کے جانور میں جتنے شرکاء ہیں سب کی نیت قربت ہی کی ہونی چاہیے تاکہ تجزی لازم نہ آئے، رہی یہ بات کہ کس کی نیت کیا ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے، تو بے شک نیتوں کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے، لیکن ہمیں کسی کے متعلق بلاوجہ بدگمان ہونے کی اجازت نہیں، ہم تو ظاہر کے مکلف ہیں، چنانچہ اکر کوئی شریک نصرانی یا مرتد ہے یا مسلمان ہی ہے لیکن وہ اپنی نیت واضح کردے کہ میں قربانی کے لیے نہیں بلکہ صرف گوشت کے لیے شریک ہورہا ہوں تو ایسی صورت میں ظاہر کا اعتبار کرتے ہوئے یہی حکم لگایا جائے گا کہ کسی کی قربانی درست نہ ہوئی، لیکن اگر سارے شرکاء مسلمان ہیں اور کسی کی طرف سے ایسی کوئی صراحت نہیں کہ وہ صرف گوشت کے لیے مثلاً حصہ لے رہا ہے تو مسلمانوں کا معاملہ سداد پر محمول کیا جائے گا اور حسن ظن یہی رکھا جائے گا کہ قربانی کے دنوں میں مسلمان قربانی ہی کی نیت سے جانور ذبح کرتا ہے یا شرکت کرتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند