• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 14685

    عنوان:

    زید نے بکر سے کشتی کے لیے چھ لاکھ روپیہ ادھار لیا او رکشتی خریدی۔ زید اب پابند ہے کہ سمندر میں سے جو مال لاتا ہے بکر کو دے دے جس کی مارکیٹ کی قیمت ساٹھ روپیہ فی کلو ہے جب کہ بکر کو دیتا ہے پچاس روپیہ فی کلو، کیوں کہ زید قرض دار ہے بکر کا۔ یہ دس روپیہ فی کلو سود ہے جو بکر لیتا ہے زید سے صرف قرض کی بنیاد پر۔ لیکن اب زید کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ سود کی لعنت سے بچنے کے لیے بکر کو سارا قرضہ دے دے اوراگر کشتی بھی بیچ دے تو کشتی کی قیمت تقریباً چار لاکھ ہوگی۔ اب زید کے لیے کیا حکم ہے شریعت کی روشنی سے؟ (۲)اب اگر تھوڑا تھوڑا کرکے بکر کا سارا قرض لوٹاتا ہے تو اب زید کشتی کا مالک بن جاتا ہے۔ اب سمندر میں سے جو مال لایا جاتا ہے اس کے بارہ حصے کئے جاتے ہیں جس میں سے پانچ حصے زید (کشتی کا مالک، جن پر مزدوں کا ان کی اپنی رضا مندی سے کوئی حق نہیں) کے ہوتے ہیں جب کہ باقی سات حصے کشتی کے مزدوروں کو ملتے ہیں۔ ......

    سوال:

    زید نے بکر سے کشتی کے لیے چھ لاکھ روپیہ ادھار لیا او رکشتی خریدی۔ زید اب پابند ہے کہ سمندر میں سے جو مال لاتا ہے بکر کو دے دے جس کی مارکیٹ کی قیمت ساٹھ روپیہ فی کلو ہے جب کہ بکر کو دیتا ہے پچاس روپیہ فی کلو، کیوں کہ زید قرض دار ہے بکر کا۔ یہ دس روپیہ فی کلو سود ہے جو بکر لیتا ہے زید سے صرف قرض کی بنیاد پر۔ لیکن اب زید کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ سود کی لعنت سے بچنے کے لیے بکر کو سارا قرضہ دے دے اوراگر کشتی بھی بیچ دے تو کشتی کی قیمت تقریباً چار لاکھ ہوگی۔ اب زید کے لیے کیا حکم ہے شریعت کی روشنی سے؟ (۲)اب اگر تھوڑا تھوڑا کرکے بکر کا سارا قرض لوٹاتا ہے تو اب زید کشتی کا مالک بن جاتا ہے۔ اب سمندر میں سے جو مال لایا جاتا ہے اس کے بارہ حصے کئے جاتے ہیں جس میں سے پانچ حصے زید (کشتی کا مالک، جن پر مزدوں کا ان کی اپنی رضا مندی سے کوئی حق نہیں) کے ہوتے ہیں جب کہ باقی سات حصے کشتی کے مزدوروں کو ملتے ہیں۔ جب مال بیچا جاتا ہے تو ساٹھ روپیہ فی کلو کے حساب سے او رحصے تقسیم ہوتے ہیں پچاس روپیہ فی کلو کے حساب سے، یہ دس روپیہ فی کلو بچائے جاتے ہیں کشتی کے خرچے (جال، انجن، پنکھا، وغیرہ خراب ہوتے ہیں ان کی مرمت ) کے لیے جس پر مزدوروں کو کوئی اعتراض نہیں، کیوں کہ اگر نہ بچایا جائے تو خرچے پورے نہیں ہوپاتے اور کاروبار نہیں چل سکتا۔ یہ خرچے دس روپیہ فی کلو کی رقم سے پورے کئے جاتے ہیں۔ اب اگر پورے سال خرچہ نہ ہو یا خرچہ کم ہو او رپیسے زیادہ بچ جائیں تو یہ دس روپئے فی کلو کے حساب سے بچے ہوئے پیسے کس کے ہوں گے مالک کے یا مزدوروں کے؟ کیوں کہ ہمارے یہاں یہ دس روپیہ فی کلو سے بچے ہوئے پیسے کشتی کا مالک لیتا ہے اور سال کے اندر اپنی دوسری کشتی کرتا ہے ، کیا یہ جائز ہے؟ تھوڑی وضاحت سے جواب عطا کریں۔

    جواب نمبر: 14685

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1359=1109/د

     

    (۱) بکر کو بجائے ساٹھ روپئے کے پچاس روپیہ کلو دینا، قرض دار ہونے کی وجہ سے ہے، اس لیے یہ یقیناً سود میں داخل ہے کل قرض جر نفعا فہو ربا۔

    (۲) دس روپیہ فی کلو جو خرچ وغیرہ کے نام سے روکے گئے ہیں، مزدوروں کے حصہ کی رقم روکنا جائز نہیں ہے کیونکہ کشتی کی مرمت وغیرہ کشتی کے مالک کے ذمہ آتی ہے، مزدوروں پر اس کا بوجھ ڈالنا درست نہیں ہے۔ البتہ شروع ہی سے ان کی مزدوری کم طے کی جائے اورمالک کشتی کے حصہ میں اس کا نفع اس قدر رکھا جائے جس سے وہ بوقت ضرورت کشتی کی مرمت بھی کراسکے تو جائز ہے، لیکن مزدوروں کی مزدوری طے کرنے کا مذکور فی السوال طریقہ درست نہیں ہے۔ یہ قفیز طحان کے مشابہ ہے، کہ سمندر سے جو مال مزدوروں نے نکالا اسی کا بعض جز یا اس کی قیمت اجرت میں دینا طے کیا گیا ہے، ایسا کرنا ناجائز ہے، ان کی مزدوری نکلنے والے مال کے علاوہ سے دوسرے ریٹ سے طے کی جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند