• عبادات >> قسم و نذر

    سوال نمبر: 612103

    عنوان:

    مزار پر جانور ذبح کرنے کی نذر ماننا

    سوال:

    سوال : ہمارے ایک رشتہ دار نے ایک بزرگ کے مزار پر جانور ذبح کیا اور مکمل شرعی اعتبار سے ذبح کیا مثلابسم الله اللہ اکبر پڑھی ٫ مسلمان سے ذبح کرایا٫ شرعی اعتبار سے گردن کا ٹی. لیکن ان کی نیت یہ تھی کہ ان کا بیٹا( جو بیمار تھا) ٹھیک ہو جائے توفلاں بزرگ کے مزار پر بکرا ذبح کریں گے. اور ا نہوں نے تمام رشتہ داروں کو دعوت کی کہ وہاں کھانا کھانے آنا. میں نے ان سے کہا کہ گھر پر ذبح کرو لیکن وہ نہیں مانے. اور ہم وہاں نہیں گئے۔(۱) آپ حضرت سے سوال یہ ہے کہ کیا یہ ذبیحہ غیر الله کے نام ہے یا نہیں؟

    (۲) کیا اس طرح نذر ماننا شرعی اعتبار سے ٹھیک ہے؟ (۳) اگر یہ شر عی اعتبار سے ٹھیک نہیں ہے تو میں ان حضرت کو دلیل کے طور پر کیا بتاو. اور مہربانی کرکے تفصیل سے یہ بھی بتائیں کی اس میں کون کون سی خرابی ہے. ہماری دعوت پر نہ جانے سے وہ سخت ناراض ہوے ہے. اس لئے تفصیل کے ساتھ بتائے جزاک اللہ خیراً۔

    جواب نمبر: 612103

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 909-358/D-Mulhaqa=11/1443

     (۱، ۲،۳ ) صورت مسئولہ میں اگر آپ کے رشتہ دار کا بزرگ کے مزار پر ذبح کرنے سے مقصود صاحب مزار کا تقرب تھا (جیساکہ مزار پر ذبح کرنے میں عموما یہی نیت ہوتی ہے) تو اس نیت سے ذبح کرنا حرام اور معصیت ہے، ایسی صورت میں مذبوحہ جانور مردار کے حکم میں ہوگا اگرچہ ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھی گئی ہواور ایسی نذر ماننا بھی جائز نہیں ہے اوراگر مقصود تقرب الی اللہ تھا تو ذبیحہ حلال ہوگا ؛ البتہ مزار پر جاکر ذبح کرنا بدعت اور بد عقیدگی ہے، جس سے احتراز لازم تھا، بہر صورت آپ نے ایسی دعوت میں شرکت نہ کرکے عین شریعت کے مطابق عمل کیا ، ایسی دعوت میںہر گز شرکت نہیں کرنی چاہیے ۔

    قال الحصکفی : واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام ما لم يقصدوا صرفها لفقراء الأنام وقد ابتلي الناس بذلك، ولا سيما في هذه الأعصار وقد بسطه العلامة قاسم في شرح درر البحار۔قال ابن عابدین: (قوله تقربا إليهم) كأن يقول يا سيدي فلان إن رد غائبي أو عوفي مريضي أو قضيت حاجتي فلك من الذهب أو الفضة أو من الطعام أو الشمع أو الزيت كذا بحر (قوله باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق. ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك.ومنه أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى واعتقاده ذلك كفر۔( الدر المختار مع رد المحتار: ۲/۴۳۹،دار الفکر، بیروت، جواہرالفقہ: ۶/۲۳۷، رسالہ توضیح کلام أھل اللہ فیما أھل بہ لغیر اللہ ، زکریا،دیوبند )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند