• عبادات >> قسم و نذر

    سوال نمبر: 166204

    عنوان: میں نے نذر مانی كہ ’’اے اللہ مجھے بہت امیر کردے ، میں مسجد میں بنوادوں گا‘‘ كیا مجھے یہ نذر پوری كرنا ضروری ہے؟

    سوال: میں نے یہ کہہ دیا تھا کہ اللہ مجھے بہت امیر کردے ، میں مسجد میں بنوادوں گا اور میری عمر ابھی اکیس سال ہے ، میں پڑھ ہی رہاہوں، مجھے ان باتوں کا یہ تھا کہ جو ہوسکے کردو نہیں تو اللہ معاف کردے گا، مجھے اس میں کیا کرنا چاہئے؟ سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کا ایصال ثواب کرسکتے ہیں یا نہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کا ایصال ثواب نہیں کرسکتے، قرآن کا ایصال ثواب کرنے کی کوئی حدیث ثابت نہیں ہے۔ شکریہ

    جواب نمبر: 166204

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:156-20T/sd=3/1440

     (۱) اگر آپ نے یہ کہا تھا کہ اللہ مجھے امیر بنادے ، میں مسجد بنوادوں گا، اس جملہ کی وجہ سے آپ پر مسجد بنوانا ضروری نہیں ہے ، باقی اگر اللہ تعالی نے آپ کو مال کی وسعت دی ہے ، تو مسجد مدرسہ وغیرہ کی تعمیر میں جہاں ضرورت ہو حسب وسعت تعاون کریں، اس سے ان شاء اللہ برکت ہوگی ۔

    (۲) قرآن پڑھ کر مرحوم کو ایصال ثواب پہنچانا جائز و درست ہے ، اس پر جمہور اہل السنة والجماعة کا اتفاق ہے ، کسی بھی حدیث سے اس کی ممانعت ثابت نہیں ہے ، جب کہ متعدد روایات سے مرحوم تک اچھے اعمال کا ثواب پہنچنا ثابت ہے ، لیکن ایصالِ ثواب کے لیے مروجہ قرآن خوانی جس میں تخصیصات و التزامات کیے جاتے ہیں،اجتماع کا التزام کیا جاتا ہے ، دعوت و شیرینی وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور قرآن پڑھنے والوں کو قرآن پڑھنے پر نذرانہ وغیرہ دیا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے ان کو کھانا اور ناشتہ وغیرہ کرایا جاتا ہے ؛ ناجائز و بدعت ہے ،یہ طریقہ نہ حدیث شریف سے ثابت ہے اور نہ ہی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے اس کا ثبوت ملتا ہے ،شریعت میں ایصال ثواب کے لیے کوئی خاص عمل یا دن وغیرہ کی تخصیص ثابت نہیں ہے ،ایصالِ ثواب کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو شخص جب چاہے جہاں چاہے اور جس قدر چاہے قرآن شریف، درود پاک نوافل پڑھ کر یا کوئی بھی نفلی عبادت کرکے یا کسی غریب مسکین محتاج کی ضرورت پوری کرکے کسی مدرسہ مسجد وغیرہ میں ضرورت کا سامان دے کر الغرض کوئی بھی نیک کام کرکے یہ دعاء کرلیا کرے کہ یا اللہ اس کا ثواب فلاں کو پہنچادے یا فلاں فلاں کو پہنچادے ،بس یہ ایصال ثواب ہے۔

     وقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: “لا یصوم أحد عن أحد ولا یصلی أحد عن أحد أی: فی حق الخروج عن العہدة لا فی حق الثواب فإن من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات أو الأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنة والجماعة۔۔۔۔ وعلیہ عمل المسلمین من لدن رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - إلی یومنا ہذا من زیارة القبور وقرائة القرآن علیہا والتکفین والصدقات والصوم والصلاة وجعل ثوابہا للأموات، ولا امتناع فی العقل أیضا لأن إعطاء الثواب من اللہ تعالی إفضال منہ لا استحقاق علیہ، فلہ أن یتفضل علی من عمل لأجلہ بجعل الثواب لہ کما لہ أن یتفضل بإعطاء الثواب من غیر عمل رأسا۔ (بدائع الصنائع ۲: ۲۵۴) وأما قرائة القرآن وإہداوٴہا لہ تطوعا بغیر أجرة فہذا یصل إلیہ کما یصل ثواب الصوم والحج (کتاب الروح لابن القیم: ص۲۱۱) لا نزاع بین علماء السنة والجماعة فی وصول ثواب العبادات المالیة، والصواب أن الأعمال البدنیة کذلک (مجموع فتاوی ابن تیمیة ۲۴: ۳۶۶) والمعتمد فی المذاہب الأربعة أن ثواب القراء ة یصل إلی الأموات؛ لأنہ ہبة ودعاء بالقرآن الذی تتنزل الرحمات عند تلاوتہ، وقد ثبت فی السنة النبیوة وصول الدعاء والصدقة للمیت، وذلک مجمع علیہ (التفسیر المنیر للدکتور وہبة الزحیلی ۱۴: ۱۴۰)تفصیل کے لیے دیکھیے :( ایصال ثواب بالقرآن موٴلفہ: مولانا محمد اطہر صاحب کریم نگری، ناشر ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد ص ۲۴، ۲۵)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند