• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 36465

    عنوان: کیا مع مستورات کا تبلیغی جماعت میں جانا درست ہے ؟

    سوال: کیا مع مستورات کا تبلیغی جماعت میں جانا درست ہے ؟

    جواب نمبر: 36465

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 321=190-2/1433 مستورات کا دعوت وتبلیغ کے لیے سفر کرنا حضرت مولانا مفتی سید مہدی حسن صاحب (صدر مفتی دارالعلوم دیوبند) کا فتویٰ اور حضرت مولانا مفتی سعید ا حمد صاحب (مفتی اعظم مظاہر علوم سہارن پور) نیز حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب  (ناظم اعلیٰ مظاہر علوم سہارنپور) کی تائید وتصدیق۔ سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ کیا عورتوں کا تبلیغ کے لیے سفر کرنا مع محرم کے درست ہے؟ المستفتی: حافظ عبد الرحیم مسجد کوٹھے والی صدر بازار دہلی ۱۷/۲/۱۳۷۱ھ (۱۰۹/د) بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے زمانہ میں تبلیغ کیا لیے عورتیں سفر نہ کرتی تھیں، اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ صحابہ نے تبلیغ کے لیے عورتوں کو سفر کرنے کا حکم فرمایا، نہ خود تبلیغ کے لیے سفر میں روانہ کیا، اس عمل سے ثابت ہے کہ عورتوں کو تبلیغ کے لیے سفر کرنا جائز نہیں، خیر القرون کے زمانہ میں اگر کسی عورت کو کسی مسئلہ کی ضرورت ہوتی تھی، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا ازواجِ مطہرات یا صحابہ کی بیویوں سے آکر دریافت کرلیتی تھیں، تبلیغ مردوں کے ذمے اس زمانے میں مقرر تھی، اور عورتیں پردہ کے ذریعہ سے احکام کو معلوم کرکے دین کی باتیں سکھتی تھیں، مردوں کا کام یہ تھا کہ وہ اپنی عورتوں کو دین سے واقف کرائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام تبلیغ کے لیے سفر کرتے تھے، جہاد میں جاتے تھے؛ لیکن عام طور پر سب عورتوں کو اپنے ساتھ نہ لے جاتے تھے۔ جب اس خیر کے زمانے میں یہ صورت حال رہی ہے، تو اس شر اور فتنوں کے زمانے میں عورتوں کو تبلیغ کے لیے سفر کرنا، اگرچہ محرم کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو کیوں کر جائز ہوسکتا ہے؟ ! یہ خیال کہ عورتوں کو کس طرح تبلیغ ہوگی؟ اس بنا پر صحیح نہیں کہ ان کے مرد اُن کو تبلیغ کریں، اور دین کے احکام ان کو سکھائیں، اور خود مرد دین کی باتیں دوسرے واقف کاروں سے سیکھیں یا سیکھنے اور سکھلانے کے لیے سفر کریں، ورنہ عام طور پر عورتوں کا تبلیغ کے لیے سفر کرنا فتنے کے دروازوں کا کھول دینا ہے، جو آج دنیا پر نظر ڈالنے سے مشاہد بھی ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم سید مہدی حسن غفر لہ (صدر مفتی دارالعلوم دیوبند) ۲۵/۲/۱۳۷۱ھ الجواب صحیح: سعید احمد غفرلہ (مفتی اعظم مظاہر علوم سہارنپور) الجواب صحیح: عبداللطیف (ناظم اعلیٰ مظاہر علوم سہارنپور) نوٹ: ان دونوں حضرات کی تصدیق مظہر علوم سہارن پور کے دارالافتاء کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ (مفتی) حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ ۲۳/۳/۱۴۳۲ھ نقل مطاب اصل ہے۔ زین الاسلام قاسمی نائب مفتی دارالعلوم دیوبند ۲۸/۱۱/۳۲ھ _________________________________________________________________ حضرت مولانا مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری (مفتی اعظم گجرات) کا فتویٰ: سوال: (۱۶۷) کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ میں اپنی اہلیہ کو لے کر تبلیغی جماعت میں جاسکتا ہوں؟ عورتوں کو جماعت میں لے جانا چاہیے یا نہیں؟ الجواب: حامدا ومصلیا ومسلما: عورتوں کو جماعت میں لے جانا مطلوب اور پسندیدہ نہیں ہے، اور ”وَاِثْمُہُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا“ (سورہٴ بقرہ، آیت: ۲۱۹) کا مصداق ہے، عورتیں غیر محتاط ہوتی ہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب (۱۰/۴۹۸) (فتاویٰ رحیمیہ کامل: ۲/۱۳۶-۱۳۷، باب الدعوة والتبلیغ) (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند: ۱۶/۲۰۸-۲۱۰)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند