• Miscellaneous >> Halal & Haram

    Question ID: 58341Country: India

    Title: میں ڈاکٹر ہوں، اور اپنے مریض کے لیے اسقاط حمل دوائی کے استعمال کے بارے میں جاننا چاہتاہوں، کیا اپنے مریضوں کو یہ دوائی دینا حرام ہے؟براہ کرم، مشورہ دیں کہ یہ حرام ہے یا حلال ؟ اور اس دوائی کی انکم کے بارے میں کیا حکم ہے؟

    Question: میں ڈاکٹر ہوں، اور اپنے مریض کے لیے اسقاط حمل دوائی کے استعمال کے بارے میں جاننا چاہتاہوں، کیا اپنے مریضوں کو یہ دوائی دینا حرام ہے؟براہ کرم، مشورہ دیں کہ یہ حرام ہے یا حلال ؟ اور اس دوائی کی انکم کے بارے میں کیا حکم ہے؟

    Answer ID: 58341

    Bismillah hir-Rahman nir-Rahim !

    Fatwa ID: 581-470/D=6/1436-U عام حالات میں بغیر عذر کے یا فقر وافلاس کے خوف سے یا بیٹی پیدا ہونے کے ڈر سے حمل ساقط کرانا جائز نہیں، حمل خواہ چار مہینہ کا ہو یااس سے کم کا البتہ بعض قوی اعذار کی بنا پر اعضا بننے سے قبل یعنی چار مہینہ سے اسقاط کی گنجائش ہے، مثلاً ماہر مسلم ڈاکٹر عورت کا معائنہ کرکے بتائے کہ (۱) اگر حمل باقی رہا تو عورت کی جان یا کسی عضو کے تلف ہونے کا شدید خطرہ ہے۔ (۲) یا گود میں بچہ ہو اور نئے حمل کی وجہ سے دودھ خشک ہوگیا ہو اور دوسرے ذرائع سے گود کے بچے کی پرورش کا انتظام ممکن نہ ہوسکے یا (۳) حمل زنا سے ہ و ان تین صورتوں میں چار ماہ سے قبل حمل ساقط کرانے کی گنجائش ہے، جن صورتوں میں اسقاط کرانے کی گنجائش ہے ان میں آپ کے لیے اسقاط کی دوائی دینا بھی جائز ہے اور اس کی آمدنی حلال ہے اور جن صورتوں میں اسقاط ناجائز ہے ان میں اسقاط کی دوائی دینا ناجائز ہے اور اس کی آمدنی مکروہ ہے، حمل چار ماہ کا ہوجانے کی شکل میں عذر یا بلاعذر کسی طرح بھی اسقاط کرانا جائز نہیں کیوں کہ چار ماہ میں بچہ میں جان پڑجاتی ہے، اس وقت اس کا گناہ قتل کے برابر ہوجاتا ہے۔

    Allah (Subhana Wa Ta'ala) knows Best

    Darul Ifta,

    Darul Uloom Deoband, India