• متفرقات >> تصوف

    سوال نمبر: 158253

    عنوان: بخل اور قناعت وغیرہ سے متعلق چند سوالات

    سوال: سائل ایک طالب علم ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے ۔ سوالات درج ذیل ہیں: (1) بخل (کنجوسی) اور قناعت کی تعریف کیا ہے ؟ (2) کفایت شعاری کی تعریف کیا ہے ؟ اعتدال کے ساتھ ایک طالب علم کس طرح کفایت شعاری کی زندگی گزار سکتا ہے ؟ (3) ایک شخص اسرف اور تبذیر سے حتی المقدور بچتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ جائز و مباح خواہشات ( مثلا از قبیل ماکولات و ملبوسات) کو بھی دبا کر رکھتا ہے ۔کیا اس کا یہ عمل بخل میں شمار ہوگا ؟ پیسے کم خرچ کرتا ہے ( تاکہ والدین پر بوجھ نہ ہو)۔ محض اس لئے بچا کر رکھتا ہے کہ مستقبل میں کسی اہم اور بڑی ضرورت میں استعمال کرے گا۔ ایسا کرنا کہیں توکل علی اللہ کے خلاف تو نہیں ؟ (4) اپنے ماہانہ اخراجات کو ڈائری میں لکھ کر حساب رکھنا کیا مناسب اور درست ہے ؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔ خیرا فی الدارین۔

    جواب نمبر: 158253

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 506-440/N=5/1439

    بخل کہتے ہیں: جس جگہ پر شرعاً یامروتاً خرچ کرنا ضروری ہو، وہاں آدمی خرچ نہ کرے۔، جیسے زکوة نہ دینا، اور وسعت کے باجود مہمان کا خیال نہ رکھنا۔ اور قناعت کا مطلب ہے: آدمی کو اللہ تعالی جو رزق عطا فرمائے، اس پر خوش دلی سے راضی رہے، شکوہ شکایت نہ کرے۔

    (۲): کفایت شعاری کا مطلب ہے:اسراف فضول خرچی اور تعیش سے بچتے ہوئے قدر ضرورت پر اکتفا کرے۔ طالب علم کو چاہیے کہ والد صاحب اسے ماہانہ جو خرچہ دیتے ہیں، ان سے اپنی ضروریات پوری کرے ، اور طلبہ کی دیکھا داکھی ہوٹل بازی نہ کرے، اور جو پیسے بچ جائیں، وہ آئندہ ماہ استعمال میں لائے یا ضرورت کی کتابیں خریدلے، وغیرہ وغیرہ۔

    (۳): جی نہیں! یہ بخل میں شمار نہ ہوگا؛ البتہ جائز ومباح خواہشات میں نفس پر بہت زیادہ زور نہ ڈالے، مثلاً اس طرح کی دس خواہشات میں ایک دو پوری کرلیا کرے؛ تاکہ نفس پر بہت زیادہ بار نہ ہو، نیز حسب وسعت وحیثیت ضروریات کی تکمیل میں بہت زیادہ پس وپیش سے کام نہ لے۔ اور گاہے گاہے غریبوں کا تعاون بھی کرتا رہے ؛ تاکہ بہت زیادہ جائز ومباح خواہشات دبانے سے نفس میں بخل کی صفت نہ پیدا ہوجائے۔ مستقبل کی کسی اہم ضرورت کی تکمیل کے لیے پیسے بچاکر رکھناتوکل علی اللہ کے خلاف نہیں ہے۔

    (۴): جی ہاں!ماہانہ اخراجات ڈائری میں لکھ کر رکھنا درست ہے؛ بلکہ مناسب ہے؛ تاکہ پیسہ صحیح اور جائزجگہ ہی خرچ ہو۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند