متفرقات >> تصوف
سوال نمبر: 158253
جواب نمبر: 158253
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 506-440/N=5/1439
بخل کہتے ہیں: جس جگہ پر شرعاً یامروتاً خرچ کرنا ضروری ہو، وہاں آدمی خرچ نہ کرے۔، جیسے زکوة نہ دینا، اور وسعت کے باجود مہمان کا خیال نہ رکھنا۔ اور قناعت کا مطلب ہے: آدمی کو اللہ تعالی جو رزق عطا فرمائے، اس پر خوش دلی سے راضی رہے، شکوہ شکایت نہ کرے۔
(۲): کفایت شعاری کا مطلب ہے:اسراف فضول خرچی اور تعیش سے بچتے ہوئے قدر ضرورت پر اکتفا کرے۔ طالب علم کو چاہیے کہ والد صاحب اسے ماہانہ جو خرچہ دیتے ہیں، ان سے اپنی ضروریات پوری کرے ، اور طلبہ کی دیکھا داکھی ہوٹل بازی نہ کرے، اور جو پیسے بچ جائیں، وہ آئندہ ماہ استعمال میں لائے یا ضرورت کی کتابیں خریدلے، وغیرہ وغیرہ۔
(۳): جی نہیں! یہ بخل میں شمار نہ ہوگا؛ البتہ جائز ومباح خواہشات میں نفس پر بہت زیادہ زور نہ ڈالے، مثلاً اس طرح کی دس خواہشات میں ایک دو پوری کرلیا کرے؛ تاکہ نفس پر بہت زیادہ بار نہ ہو، نیز حسب وسعت وحیثیت ضروریات کی تکمیل میں بہت زیادہ پس وپیش سے کام نہ لے۔ اور گاہے گاہے غریبوں کا تعاون بھی کرتا رہے ؛ تاکہ بہت زیادہ جائز ومباح خواہشات دبانے سے نفس میں بخل کی صفت نہ پیدا ہوجائے۔ مستقبل کی کسی اہم ضرورت کی تکمیل کے لیے پیسے بچاکر رکھناتوکل علی اللہ کے خلاف نہیں ہے۔
(۴): جی ہاں!ماہانہ اخراجات ڈائری میں لکھ کر رکھنا درست ہے؛ بلکہ مناسب ہے؛ تاکہ پیسہ صحیح اور جائزجگہ ہی خرچ ہو۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند