عنوان: حرام پیسوں سے لئے ہوئے موبائل کے ذریعے علماء کرام سے مسائل پوچھنا
سوال: حرام پیسوں سے لئے ہوئے موبائل کے ذریعے علماء کرام سے مسائل پوچھنا، ایسی طرح کام میں یعنی ڈیوٹی کے دوران کام چوری کرکے علماء کرام سے مسائل پوچھنا اور ناجائز وائی فائی کا استعمال کرکے علماء کرام سے مسائل پوچھنا۔
میرا تعلق پاکستان خیبر پختونخواہ سے ہے اور اس وقت سعودی عرب میں کام کرتا ہوں۔ میں نے ایک مفتی صاحب سے سنا ہے کہ کتابوں میں مذکور ہے کہ اگر کوئی زمین پر ناجائز قبضہ کرے اور اس پر مسجد تعمیر کرے تو اس میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ اس کا وضاحت کردیں کہ کس کس کا نماز مکروہ تحریمی ہوگا؟؟ ناجائز قبضہ کرنے والے کا؟؟ یا جس جس کو معلوم ہو کہ یہ مسجد ناجائز قبضہ کا ہے ؟؟ یا ہر شخص اس مسجد میں جو نماز پڑھے گا چاہے کسی کو معلوم ہو یا نا ہو کہ یہ مسجد ناجائز قبضہ کا ہے؟؟ تقریباً اس سے متعلق اور سوالات ہیں۔
1) ) میں نے مختلف علماء کرام سے مختلف سوالات یعنی مسائل پوچھے ہیں جس میں طلاق وغیرہ کے مسائل بھی شامل ہیں۔ واٹس ایپ اور فیس بک میسنجر وغیرہ کے ذریعے : لیکن سچ یہ ہے کہ جو موبائل میرے پاس ہے یعنی جس موبائل کے ذریعے میں نے علماء کرام سے مسئلہ مسائل پوچھے ہیں یہ موبائل میں نے حرام پیسوں سے لیا ہے مطلب چوری کے پیسوں سے لیا ہے ۔ جو کہ چوری کرنا تو حرام اور ناجائز ہے ۔ اور اسی موبائل کے ذریعے میں نے علماء کرام سے مسئلہ مسائل بھی پوچھے ہیں۔ جسے کہ ابھی آپ سے پوچھ رہا ہوں اسی موبائل کے ذریعے۔ تو اس طرح حرام پیسوں سے لئے ہوئے موبائل کے ذریعے علماء کرام سے مسائل پوچھنا کیسا ہے ؟؟ مطلب یہ سب سوالات یعنی مسائل جو میں نے اس موبائل کے ذریعے پوچھے ہیں یا اس کے بعد جو مسائل اسی موبائل کے ذریعے علماء کرام سے پوچھونگا یہ سب سوالات دوبارہ اسی علماء کرام سے یا کسی اور عالم سے دوبارہ پوچھنا ضروری ہے یا نہیں ؟؟؟ باقی میں مانتا ہوں کہ میں نے غلط حرکت کیا ہے اور اس کا مال اسے لوٹانا ضروری ہے ۔
2) ) میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں اور تنخواہ لیتا ہوں ، لیکن سچ یہ ہے کہ ڈیوٹی میں سے کچھ وقت نکال کر یعنی کام چوری کرکے بھی میں نے علماء کرام سے کچھ مسائل یعنی سوالات پوچھے ہیں۔
3) ) ہمارے کمرے میں جو نٹ یعنی وائی فائی ہے یہ ہمارا اپنا نہیں ہے ?ہم جس کمپنی میں کام کرتے ہیں اس کمپنی کا ہے، ہم اس وقت کمرے میں تین ساتھی ہیں جو کہ ایک ہی کمپنی میں کام کرتے ہیں اور یہ کمپنی کا وائی فائی ایک ساتھی نے کمپنی کی دوکان سے اٹھا کر لایا ہے کمپنی کے اجازت کے بغیر جو کہ ناجائز ہے ، تقریباً تین مہینے ہوگئے اس وائی فائی کو استعمال کرتے ہوئے ، جوکہ وائی فائی کا بل ہمارے کمپنی نے جمع کیا ہوا ہے پہلے سے ، اور کمپنی نے وائی فائی اپنے کام کے لئے لگائے ہیں دوکانوں میں ، اس کمپنی کے تیار کپڑے چپل اور وغیرہ وغیرہ سامان کے دوکانیں ہیں یعنی کاروبار ہے، اور اس وائی فائی کو استعمال کرتے ہوئے بھی میں نے کچھ مسائل علماء کرام سے پوچھے ہیں، باقی دوکان میں رہتے ہوئے یعنی ڈیوٹی کے دوران اگر کام نہ ہو تو استعمال کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن کمرے لانا منع ہے ، تو حرام پیسوں لئے ہوئے موبائل کے ذریعے ، اور ڈیوٹی کے وقت کام چوری کرتے ہوئے، اور اس طرح چوری چپ کر وائی فائی لانا اور استعمال کرنا اور اس کے ذریعے علماء کرام مسائل پوچھنا کیسا ہے؟ ان سب صورتوں میں علماء کرام سے پوچھے گئے مسائل اور اس کے بعد پوچھنے والے مسائل پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں ؟ مطلب دوبارہ سے اسی عالم سے یا کسی اور عالم سے دوبارہ سے وہی مسائل پوچھنا ضروری ہے یا نہیں؟؟ مطلب مسائل پوچھنا اپنی جگہ ٹھیک ہیں یا نہیں؟؟ تحریر طویل ہوگیا معذرت چاہتا ہوں۔
جواب نمبر: 17738701-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 654-132T/D=08/1441
غصب کی ہوئی زمین پر مسجد بنانا جائز نہیں اس میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے جنہیں معلوم ہو کہ یہ مسجد غصب کردہ زمین میں بنائی گئی ہے اور جن لوگوں نے لاعلمی میں پڑھا ان کی نماز میں کراہت نہ ہوگی۔ قال فی الشامي: وکذا تکرہ فی أماکن: کفوق کعبة ، وفی طریق ومزبلة ، ومجزرة ․․․․․․․ وأرض مغصوبة وفی الواقعات: بنی مسجداً علی سور المدینة لا ینبغي أن یصلّی فیہ؛ لانہ حق العامة فلم یخلص اللہ تعالی کالمبنی فی أرض مغصوبة ․․․․․․․․ فالصلاة فیہا مکروہة تحریماً فی قول وغیر صحیحة لہ فی قول آخر (رد المحتار مع الدر المختار: ۲/۴۴) ۔
(۲) چوری کرنا ناجائز اور گناہ ہے موبائل رقم چوری سے خریدنا بھی گناہ ہے لیکن ایسے موبائل کے ذریعہ علماء کرام سے جو مسائل پوچھے گئے پھر ان کے مطابق عمل کر لیا تو اس عمل میں کوئی خرابی نہیں آئی نہ ہی اب ان مسائل کو دوبارہ کسی حلال آمدنی کے موبائل کے ذریعہ پوچھنا ضروری ہے بس اپنے اس چوری کے عمل سے توبہ کرنا ضروری ہوگا اور جس کا موبائل چوری کیا ہے اسے موبائل یا اس کی قیمت واپس کریں یا اس کا حق اس سے معاف کرائیں۔ ڈیوٹی کی چوری کرنا گناہ ہے جس کی تلافی کمپنی کا حق ادا کرکے کی جائے رہا اس وقت میں دینی مسئلہ پوچھنے کا حکم تو جو بات اوپر لکھی گئی ہے وہی یہاں بھی ہے کہ دوبارہ کسی عالم سے اس مسئلہ کو پوچھنا ضروری نہیں ہے۔
(۳) کمپنی کا وائی فائی جو چوری سے استعمال کیا گیا یہ گناہ ہوا جس کی تلافی کمپنی مالک سے کرلیا اس کا حق ادا کرے اور اس وائی فائی سے جو مسائل پوچھے گئے اس کے توبہ کریں اور آئندہ احتراز کریں باقی ان مسائل کو دوبارہ پوچھنا ضروری نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند