عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم
سوال نمبر: 37668
جواب نمبر: 37668
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 858-83/B=4/1433
(۱) لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْن (سورہ النساء) شان نزول: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں بیمار تھا (مرض الوفات) چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے اس وقت میری حالت یہ تھی کہ میں کچھ سمجھ نہیں پارہا تھا، مجھے افاقہ نہیں تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگاکر اس سے وضو فرمایا اور پھر بقیہ پانی سے میرے اوپر چھینٹیں ڈالیں تو مجھے افاقہ ہوا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اپنے مال کا کیا کرو، تو اس وقت یہ آیت کریمہ شروع سے نازل ہوئی، ”یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ إلخ“ یہ مکمل آیت کا شان نزول ہے، خود لفظ ”لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ“ کا الگ سے کوئی شان نزول نہیں ہے۔ (بخاری شریف: ۲/۶۵۸، کتاب التفسیر، باب قولہ یوصیکم اللہ) تفسیر: آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ”لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے گا“ یعنی ایک لڑکا لڑکی ایک ایک یا کئی کئی ملی جلی ہوں تو ان کے حصوں میں باہم یہ نسبت ہوگی کہ ہرلڑکے کو دوہرا اور ہرلڑکی کو اکہرا حصہ ملے گا۔ قرآن مجید نے لڑکیوں کو حصہ دلانے میں اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصہ کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتلایا ہے، اور بجائے ”للأنثیین مثل حظ الذکر“ کے الفاظ سے فرمانے کے ”للذکر مثل حظ الأنثیین“ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے، جو لوگ بہنوں کو حصہ نہیں دیتے، اور وہ یہ سمجھ کر بادلِ ناخواستہ شرماشرمی معاف کردیتی ہیں کہ ملنے والا تو ہے ہی نہیں تو کیوں بھائیوں سے برائی لیں، ایسی معافی شرعاً معافی نہیں ہے، ان کا حق بھائیوں کے ذمہ واجب رہتا ہے، یہ میراث دبانے والے سخت گناہ گار ہیں، ان میں بعض بچیاں نابالغ بھی ہوتی ہیں ان کو حصہ نہ دینا دوہرا گناہ ہے، ایک گناہ وارث شرعی کے حصہ کو دبانے کا اور دوسرا یتیم کے مال کو کھانے کا۔ (معارف القرآن: ۱/۳۱۹ تا ۳۳۱، سورہٴ نساء: پ:۴) (۲) یَسْتَفْتُوْنَکَ فِیْ النِّسَآءِ إلخ․ اس آیت کریمہ کا الگ سے کوئی شان نزول نہیں، بلکہ ضمناً خود اس آیت کریمہ سے ہی سمجھ میں آرہا ہے، وہ یہ ہے کہ صحابہٴ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وراثت کلالہ کے متعلق مسائل دریافت کیے تھے، تو اس وقت یہ مکمل آیت کریمہ نازل ہوئی۔ تفسیر: اس آیت کریمہ میں کلالہ کی میراث کا مسئلہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ، لوگ آپ سے میراثِ کلالہ کے باب میں حکم دریافت کرتے ہیں، آپ جواب میں فرمادیجیے کہ اللہ تم کو کلالہ کے باب میں حکم دیتا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر کوئی مرجائے، جس کی اولاد نہ ہو، یعنی نہ مذکر نہ موٴنث، اور نہ ماں باپ ہوں، اور اس کے ایک عینی یا علاتی بہن ہو، تو اس بہن کو اس کے تمام ترکہ کا نصف ملے گا، یعنی بعدِ حقوق متقدمہ، اور بقیہ نصف اگر کوئی عصبہ ہوا تو اس کو دیا جائے گا ورنہ پھر اسی پر رد ہوگا، اور وہ شخص اپنی بہن کا وارث کل ترکہ کا ہوگا، اگر وہ بہن مرجائے اوراس کے اولاد نہ ہو اوروالدین بھی نہ ہوں، اور اگر ایسی بہنیں دو یا زیادہ ہوں تو ان کو اس کے ترکہ میں سے دو تہائی ملیں گے، اورایک تہائی عصبہ کو، ورنہ بطورِ رد کے انھیں کو مل جائے، اور اگر ایسی میت کے جس کے اولاد نہ ہو، نہ والدین ہوں خواہ وہ میت مذکر ہو یا موٴنث، وارث چند یعنی ایک سے زیادہ ایسے ہی بھائی بہن ہوں، مرد اور عورت تو ترکہ اس طرح تقسیم ہوگا کہ ایک مرد کو دو عورتوں کے حصہ کے برابر، یعنی بھائی کو دوہرا، بہن کو ا کہرا، لیکن عینی بہن سے علاتی بھائی بہن سب ساقط ہوجاتے ہیں، اور عینی بہن سے کبھی وہ ساقط ہوجاتے ہیں کبھی حصہ گھٹ جاتا ہے، اللہ تعالیٰ تم سے دین کی باتیں اس لیے بیان کرتے ہیں کہ تم ناواقفی سے گمراہی میں نہ پڑو، یہ تو تذکیر واحسان ہے، اور اللہ تعالیٰ ہرچیز کو خوب جانتے ہیں، پس احکام کی مصلحتوں سے بھی مطلع ہیں، اور احکام میں ان کی رعایت کی جاتی ہے، یہ حکمت کا بیان ہے۔ (معارف القرآن: ۲/۶۲۶، ۶۲۷، سورہٴ نساء، پ:۶) (۳) نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنَّی شِئْتُمْ إلخ شان نزول: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ یہود کہتے تھے کہ جو بھی اپنی بیوی سے پیچھے کی جانب سے (آگے کے حصہ میں) وطی کرے گا تو لڑکا بھینگا پیدا ہوگا، تو اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، (بخاری شریف: ۲/۶۴۹، کتاب التفسیر) تفسیر: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: تمھاری بیویاں تمھارے لیے بمنزلہ کھیت کے ہیں، جس میں نطفہ بجائے تخم کے اور بچہ بجائے پیداوار کے ہے، سو اپنے کھیت میں جس طرف سے چاہو آوٴ، اور جس طرح کھیتوں میں اجازت ہے اسی طرح بیبیوں کے پاس پاکی کی حالت میں ہرطرف سے آنے کی اجازت ہے، خواہ کروٹ سے ہو یا پیچھے سے ہو، یا آگے سے بیٹھ کر ہو یا اوپر یا نیچے لیٹ کر ہو، یا جس ہیئت سے، مگر آنا ہرحال میں کھیت کے اندر ہو کہ وہ خالص آگے کا موقع ہے؛ کیوں کہ پیچھے کا موقع کھیت کے مشابہ نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں صحبت نہ ہو، اور ان لذات میں ایسے مشغول مت ہوجاوٴ کہ آخرت ہی بھول جاوٴ، بلکہ آئندہ کے واسطے اپنے لیے کچھ اعمال صالحہ کرتے رہو، اور اللہ تعالیٰ سے ہرحال میں ڈرتے رہو، اور یہ یقین رکھو کہ بے شک تم اللہ کے سامنے پیش ہونے والے ہو، اور اے محمد! ایسے ایمانداروں کو جو نیک کام کریں، خدا سے ڈریں، خدا کے سامنے جانے کا یقین رکھیں خوشی کی خبر سنادیجیے کہ ان کو آخرت میں ہرطرح کی نعمتیں ملیں گی۔ (معار ف القرآن: ۱/۵۴۳، سورہٴ بقرہ: پ:۲)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند