• Miscellaneous >> Dua (Supplications)

    Question ID: 179755Country: Bangladesh

    Title:

    کیا تعویذ حلال ہے یا حرام؟

    Question: کیا تعویذ حلال ہے یا حرام؟ جزاک اللہ

    Answer ID: 179755

    Bismillah hir-Rahman nir-Rahim !

    Fatwa:45-4T/L=2/1442

     رقیہ اور تعویذ تین شرطوں گے ساتھ جائز ہے : (۱) وہ آیاتِ قرآنیہ اسمائے حسنیٰ وغیرہ پر مشتمل ہو۔ (۲) عربی یا اس کے علاوہ ایسی زبان میں ہو جن کے معانی معلوم ہوں۔ (۳) یہ عقیدہ ہو کہ یہ تعویذ موثر بالذات نہیں ہے (اس کی حیثیت صرف دوا کی ہے ) موثر بالذات صرف اللہ رب العزت کی ذات ہے ،اس طرح کے تعویذ کی اجازت نبیٴ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ،؛چنانچہ خود نبیٴ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کو تعویذ کے کلمات لکھ کر دیئے تھے ،اسی طرح صحابہ کرام میں حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ،اور ان کے علاوہ تابعین میں حضرت عطا وغیرہ ایسے تعویذات کے جواز کے قائل تھے ؛البتہ شرکیہ یا نامعلوم المراد منتر سے علاج یا اس کو مؤثر بالذات سمجھنا جائز نہیں ۔

    قال ابن حجر: وقد أجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثة شروط أن یکون بکلام اللہ تعالی أو بأسمائہ وصفاتہ وباللسان العربی أو بما یعرف معناہ من غیرہ وأن یعتقد أن الرقیة لا تؤثر بذاتہا بل بذات اللہ تعالی (فتح الباری: الطب والرقی بالقرآن والمعوذات: ۵۷۳۵) عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ: کُنَّا نَرْقِی فِی الْجَاہِلِیَّةِ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، کَیْفَ تَرَی فِی ذَلِکَ؟ فَقَالَ: اعْرِضُوا عَلَیَّ رُقَاکُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَی مَا لَمْ یَکُنْ فِیہِ شرکٌ، رواہ مسلم (مشکاة: ۳۸۸/۲) وأخرج البیہقی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: فَقَالَ لِعَلِیِّ رضی اللہ عنہ اکْتُبْ: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ. ہَذَا کِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِینَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِلَی مَنْ طَرَقَ الدَّارَ مِنَ الْعُمَّارِ وَالزُّوَّارِ وَالصَّالِحِینَ، إِلَّا طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ․ أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّ لَنَا وَلَکُمْ فِی الْحَقِّ سَعَةً، فَإِنْ تَکُ عَاشِقًا مُولَعًا، أَوْ فَاجِرًا مُقْتَحِمًا أَوْ رَاغِبًا حَقًّا أَوْ مُبْطِلًا، ہَذَا کِتَابُ اللہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی یَنْطِقُ عَلَیْنَا وَعَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ، إِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ وَرُسُلُنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ، اتْرُکُوا صَاحِبَ کِتَابِی ہَذَا، وَانْطَلِقُوا إِلَی عَبَدَةِ الْأَصْنَامِ، وَإِلَی مَنْ یَزْعُمُ أَنَّ مَعَ اللہِ إِلَہًا آخَرَ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ کُلُّ شَیْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ یُغْلَبُونَ، حم لَا یُنْصَرُونَ، حم عسق تُفَرِّقَ أَعْدَاء َ اللہِ، وَبَلَغَتْ حُجَّةُ اللہِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ فَسَیَکْفِیکَہُمُ اللہُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ․ (دلائل النبوة ما یذکر من حرز أبی دجانة: ۱۱۸/۷) عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِیہِ، قَال: سَافَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ․․․وَأَتَتْہُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنِی ہَذَا بِہِ لَمَمٌ مُنْذُ سَبْعِ سِنِینَ یَأْخُذُہُ کُلَّ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَدْنِیہِ فَأَدْنَتْہُ مِنْہُ فَتَفَلَ فِی فِیہِ وَقَالَ: اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّہِ أَنَا رَسُولُ اللَّہِ․ (رواہ الحاکم فی المستدرک) عن عمرو بن شعیب، عن أبیہ، عن جدہ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یعلمہم من الفزع کلمات: أعوذ بکلمات اللہ التامة، من غضبہ وشر عبادہ، ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضرون․ وکان عبد اللہ بن عمر یعلمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعلقہ علیہ․ (أبوداود: ۳۸۹۳، والترمذی: ۳۵۲۸وقال: حسن غریب، اخْتُلِفَ فِی الِاسْتِشْفَاء ِ بِالْقُرْآنِ بِأَنْ یُقْرَأَ عَلَی الْمَرِیضِ أَوْ الْمَلْدُوغِ الْفَاتِحَةُ، أَوْ یُکْتَبَ فِی وَرَقٍ وَیُعَلَّقَ عَلَیْہِ أَوْ فِی طَسْتٍ وَیُغَسَّلَ وَیُسْقَی. وَعَنْ النَّبِیِّ -صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ- أَنَّہُ کَانَ یُعَوِّذُ نَفْسَہُ قَالَ - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ -: وَعَلَی الْجَوَازِ عَمَلُ النَّاسِ الْیَوْمَ، وَبِہِ وَرَدَتْ الْآثَارُ․ (شامی: ۵۲۳/۹) واضح رہے کہ جن احادیث میں تمیمہ کو لٹکانے پر شرک کا حکم مذکور ہے ، جیسا کہ امام اسیوطی کی جامع صغیر میں ہے : من تعلق شیئا وکل إلیہ (فیض القدیر: ۱۰۷/۶) اسی طرح دوسری حدیث میں ہے : من علق ودعة فلا ودع اللہ ومن علق تمیمة فلا تمم اللہ لہ (فیض القدیر: ۱۸۱/۶) تو وہ تمام حدیثیں اس صورت پر محمول ہونگیں، جب کہ تعویذ کو بالذات نافع وضار سمجھا جائے ، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ تعویذات کے سلسلے میں مؤثر بالذات ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے ، یا ان سے مراد ایسے تعاویذ ہیں جن میں شرکیہ ، یا ایسے الفاظ ہوں جن کے معانی معلوم نہ ہوں، چنانچہ اس طرح کی حدیثوں کی شرح کرتے ہوئے علامہ سیوطی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: أو المراد من علق تمیمة من تمائم الجاہلیة یظن أنہا تدفع أو تنفع فإن ذلک حرام والحرام لا دواء فیہ وکذا لو جہل معناہا وإن تجرد عن الاعتقاد المذکور فإن من علق شیئا من أسماء اللہ الصریحة فہو جائز بل مطلوب محبوب فإن من وکل إلی أسماء اللہ أخذ اللہ بیدہ․ (فیض القدیر: ۱۰۷/۶)

    مذکورہ عبارت سے پتہ چلا کہ جن احادیث میں ممانعت مذکور ہے ،وہ ان مذکورہ خرابیوں کی وجہ سے ہے ؛اس لئے اگر یہ مذکورہ خرابیاں نہ ہوں تو تعویذ کی شرعا گنجائش ہوگی۔

    Allah (Subhana Wa Ta'ala) knows Best

    Darul Ifta,

    Darul Uloom Deoband, India