عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 69459
جواب نمبر: 69459
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1012-178/D=12/1437 اموال کی دو قسمیں ہیں ظاہرہ اور باطنہ، اموال باطنہ کی زکوة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے آج تک صاحب زکوة خود ہی ادا کرتے ہوئے آرہے ہیں البتہ اموال ظاہر میں مثلاً مال تجارت ، جانوروں کی زکوة، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر وعمر او رعثمان رضی اللہ عنہم کے زمانہ تک حکومتی کارندوں کے ذریعہ وصول ہوتی تھی اور قرآن وحدیث میں ذکر کردہ اس کے مصارف میں خرچ ہوتی تھی، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب انہوں نے دیکھا کہ اموال کی کثرت ہوگئی ہے، جستجو اور تلاشی میں اصحاب زکوة کا کافی ضرر لاحق ہورہا ہے تو انہوں نے مصلحت سمجھا کہ اب حکومت کی طرف سے وصول نہ کرکے ارباب اموال کوہی اس کی ذمہ داری سپرد کی جائے چنانچہ صحابہ سے مشورہ کرکے انہوں نے ایسا ہی کیا، اسی وقت سے ارباب اموال خود اموال ظاہرہ کی زکوة بھی ادا کرتے آرہے ہیں آپ کے سوال نامے سے معلوم ہوتا ہے کہ اموال ظاہرہ کی طرح اموال باطنہ کی زکوة بھی حکومت وصول کرتی تھی اور حکومت زکوة کو اپنی ہر طرح کی ضروریا ت میں خرچ کرتی تھی یہ صحیح نہیں ہے نیز یہ کہنا کہ علماء نے اس طریقہ کو بدل دیا یہ بھی درست نہیں ہے بلکہ اجماع صحابہ سے یہ فیصلہ لیا گیا ہے قال فی البدائع: ․․․․․․ أن الأموال الباطنہ لایطالب الإمام بزکاتہا ․․․․․․ بخلاف الأموال الظاہرة لأن الإمام یطالب بزکاتہا ․․․․ وکان یأخذہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأبوبکر وعمر إلی زمن عثمان رضی اللہ عنہم فلما کثرت الأموال في زمانہ وعلم أن فی تتبعہا زیادة ضرر بأربابہا رأی المصلحة في أن یفوّض الأداء إلی أربابہا باجماع الصحابة فصار أرباب الأموال کالوکلاء عن الإمام (۲/۸۵ ط: رکریا) اور چونکہ زکوة ارکان اسلام میں ایک رکن اور فریضہٴ خداوندی ہے اس لیے موجودہ دور کا ٹیکس اس کا متبادل نہیں ہوسکتا، رہی یہ بات کہ ہندوستان میں زکوة کس طرح ادا کریں تو آپ سال پورا ہونے پر نصاب کا حساب کرکے ڈھائی فیصد زکوة غرباء ومساکین کو دے دیں تو آپ کی زکوة ادا ہوجائے گی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند