• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 68891

    عنوان: كیا پراپرٹی پر زکوة واجب ہے؟

    سوال: میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ آیا پراپرٹی پر زکوة واجب ہے؟ در اصل، میں نے حال ہی دبئی میں اپنا اپارٹمنٹ فروخت کردیا ہے اور اس رقم کو پاکستان میں دو پراپرٹی خریدنے کے لیے لگا دیا ہے۔ اب میں کرایہ کے مکان میں رہتاہوں اور میرے نام کوئی پراپرٹی نہیں ہے۔ میں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ میں کب اور کون سی پراپرٹی فروخت کروں گا اگر مجھے ان کو فروخت کرنا پڑے گا۔ میرا سوال ہے کہ آیا اس پراپرٹی پر زکوة واجب ہے کیوں کہ میں ریل اسٹیٹ ایجنٹ نہیں ہوں جو کہ پراپرٹی کا کاروبار کرتا ہے۔ اگر سرمایہ کی ہوئی پر اپرٹی پر ٹیکس ہے،تو کیا میں دونوں پراپرٹی پر ٹیکس ادا کروں گا یا ان میں سے ایک پر، کیوں کہ میں اس وقت کرایہ پر رہ رہا ہوں۔ واضح رہے کہ یہ خالی زمینیں ہیں نہ تو ان سے کرایہ آتا ہے اور نہ ہی ان میں پیداوار ہوتی ہے۔ آپ کے فوری جواب کے لیے مشکور ہوں گا کیوں کہ مجھے زکوة ادا کرنی ہے۔

    جواب نمبر: 68891

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1004-989/N=10/1437 فروخت کرنے کی نیت سے خریدے ہوئے پلاٹ کے مال تجارت ہونے کے لیے آدمی کا ریل اسٹیٹ ایجنٹ ہونا ضروری نہیں ، نیز مال تجارت فروخت کرنے کی تاریخ کا متعین ہونا یا پلاٹ سے کوئی آمدنی حاصل ہونا بھی ضروری نہیں ؛ اس لیے صورت مسئولہ میں اگر آپ نے یہ دونوں پلاٹ حتمی طور پر فروخت کرنے کی نیت سے خریدے ہیں اور ابھی بھی فروخت کرنے کی نیت باقی ہے ،یعنی: ان میں سے کسی پلاٹ میں مکان بناکر رہائش کا یا اسے کرایہ پر دینے وغیرہ کا ارادہ نہیں ہوا ہے تو یہ دونوں از روئے شرع مال تجارت ہیں، حسب اصول سال مکمل ہونے پر آپ پر ان کی زکوة واجب ہوگی۔ اور زکوة میں ادائیگی کے دن کی قیمت کا اعتبار ہوتا ہے، پس جس دن آپ زکوة ادا کرنا چاہیں اس دن آپ کے دونوں پلاٹوں کی مارکیٹ میں جو ویلیو ہو ، اس کا چالیسواں حصہ زکوة میں ادا کرنا ہوگا۔اور زکوة ایک شرعی فریضہ ہے ، ٹیکس یا تاوان نہیں ہے؛ اس لیے ہر صاحب نصاب مسلمان کو چاہیے کہ خوب خوش دلی فریضہ زکوة کی ادائیگی کرے، اس کو ٹیکس یا تاوان ہرگز نہ سمجھے، لا زکاة فی اللآلیٴ والجواھر وإن ساوت ألفاً اتفاقاً إلا أن تکون للتجارة، والأصل أن ما عدا الحجرین والسوائم إنما یزکي بنیة التجارة الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، ۳: ۱۹۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ولو عجل ذو نصاب زکاتہ لسنین أو لنصب صح لوجود السبب (المصدر السابق، ص ۲۲۰، ۲۲۱)۔وقال في غنیة ذوی الأحکام (۱: ۱۸۱، ط: کراتشي):والخلاف في زکاة المال فتعتبر القیمة وقت الأداء في زکاة المال علی قولھما وھو الأظھر، وقال أبو حنیفة: یوم الوجوب کما فی البرھان(غنیة ذوی الأحکام ۱: ۱۸۱، ط: کراتشي)، نیز فتاوی دار العلوم دیوبند (۶:۱۳۱، ۱۴۵،سوال:۱۹۶، ۲۲۱، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم دیوبند)، فتاوی محمودیہ (جدید ڈابھیل، کتاب الزکوة) اور فتاوی عثمانی(۲:۵۰،۵۴، مطبوعہ:مکتبہ دار العلوم کراچی ) وغیرہ دیکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند