عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 67886
جواب نمبر: 67886
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1249-1261/N=11/1437 (۱، ۲) : آپ اس سے رابطے کی کوشش جاری رکھیں، ممکن ہے کہ ایک دو سال میں اس کا سراغ لگ جائے، اور اگر بظاہر اس تک رسائی اور اس سے رابطہ مشکل ہو تو آپ پر شرعاً سالانہ اس قرضہ کی زکوة واجب نہ ہوگی، وفی المحیط عن المنتقی عن محمد: لو ھرب غریمہ وھو یقدر علی طلبہ أو التوکیل بذلک فعلیہ الزکاة، وإن لم یقدر علی ذلک فلا زکاة علیہ (رد المحتار، کتاب الزکاة، ۳: ۱۸۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔ (۳) : آپ نے اب سے تقریباً دس مہینہ پہلے اسے قرض کے طور پر جو رقم دی تھی، غالب گمان یہی ہے کہ وہ رقم اس نے اپنی ضروریات میں خرچ کردی ہوگی، اس کا کچھ بھی حصہ اس کے پاس بعینہ موجود نہ ہوگا، پس ایسی صورت میں اگرچہ وہ مستحق زکوة ہو تب بھی قرضہ کی رقم سالانہ زکوة میں برابر سرابر کرنا درست نہ ہوگا اور آپ کی زکوة ادا نہ ہوگی، البتہ اگر وہ کبھی دستیاب ہوجائے اور شرعاً مستحق زکوة ہو تو اسے زکوة کی رقم دے کر اس سے وہ رقم اپنے قرضہ میں وصول کرلینا جائز ہوگا، اور اگر وہ نہ دے تو زبردستی لینے کی بھی اجازت ہوگی، ولا یجزیٴ عن الزکاة دین أبریٴ عنہ فقیر بننیتھا (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوي، کتا الزکاة، ص۷۱۷، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) ، والحیلة أن یعطي المدیون زکاتہ ثم یأخذھا عن دینہ، ولو امتنع المدیون مد یدہ وأخذھا الخ (حاشیة الطحطاوی علی المراقي ص ۷۱۵) ، ومثلہ فی الدر المختار مع رد المحتار (کتاب الزکاة، ۳: ۱۹۱۱۹۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔ (۴) : اس کا جواب نمبر ایک اور دو کے مانند ہے۔ اور اگر وہ شخص واقعی طور پر تنگ دست ومحتاج ہو اور آپ مالی اعتبار سے ٹھیک ٹھاک ہوں تو قرضہ کی رقم معاف کردینا بہتر اور بہت زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے، قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے: وأن تصدقوا خیر لکم إن کنتم تعلمون (سورة البقرة، الآیة: ۲۸۰) ، یعنی: اگر قرض خواہ تنگدست ہو تو اس کا قرضہ معاف کردینا تم لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم لوگ جانتے ہو۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند