• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 67886

    عنوان: مستحق زکوة کو زکوة کی رقم دے کر اس سے قرضہ میں وصول کرنا کیسا ہے؟

    سوال: زکاة کے متعلق رہنمائی چاہتاہوں ۔ میں خلیجی ملک میں رہتاہوں، تقریبا ً دس مہینے پہلے میں نے ایک مسلمان بھائی کو قرض حسنہ دیا تھا،اسے اپنی بیٹی کی پڑھائی کے لیے یونیورسٹی کی فیس ادا کرنی تھی، اس نے وعدہ کیا تھا کہ ایک مہینے میں رقم واپس کردیں گے، اس نے مجھے رقم کے لیے ایک چیک بھی دیا تھا مگر وقت پر اس نے کہا کہ اسے کچھ مسئلہ درپیش ہے اور درخواست کی کہ چیک پیش نہ کریں اور معاملے کی تاخیر پر معذرت کی۔ بہت دباؤڈالنے کے بعد اس نے قسطوں میں کچھ رقم واپس کی ہے، لیکن ابھی ایک لاکھ روپئے باقی ہیں، چھ مہینے پہلے اس نے ملازمت چھوڑ دی اور ملک سے چلاگیا، اس کے تمام رابطے اور نمبرا ت سے کوئی جواب نہیں مل رہاہے،کسی کومعلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہے، وہ پیسے لے کر غائب ہوگیاہے، ان کو تلاش کرنے کے لیے میں نے تمام کوششیں کرلی۔ براہ کرم، بتائیں کہ ان حالات میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟چونکہ اس رقم کی واپس کی کوئی امید نہیں ہے، میں اس رقم کو کیسے واپس لوں؟کیا میں جو سالانہ زکاة ادا کرتاہوں اس کے نام پر برابر سرابر کرسکتاہوں؟ یا اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے؟جزاک اللہ خیرا

    جواب نمبر: 67886

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1249-1261/N=11/1437 (۱، ۲) : آپ اس سے رابطے کی کوشش جاری رکھیں، ممکن ہے کہ ایک دو سال میں اس کا سراغ لگ جائے، اور اگر بظاہر اس تک رسائی اور اس سے رابطہ مشکل ہو تو آپ پر شرعاً سالانہ اس قرضہ کی زکوة واجب نہ ہوگی، وفی المحیط عن المنتقی عن محمد: لو ھرب غریمہ وھو یقدر علی طلبہ أو التوکیل بذلک فعلیہ الزکاة، وإن لم یقدر علی ذلک فلا زکاة علیہ (رد المحتار، کتاب الزکاة، ۳: ۱۸۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔ (۳) : آپ نے اب سے تقریباً دس مہینہ پہلے اسے قرض کے طور پر جو رقم دی تھی، غالب گمان یہی ہے کہ وہ رقم اس نے اپنی ضروریات میں خرچ کردی ہوگی، اس کا کچھ بھی حصہ اس کے پاس بعینہ موجود نہ ہوگا، پس ایسی صورت میں اگرچہ وہ مستحق زکوة ہو تب بھی قرضہ کی رقم سالانہ زکوة میں برابر سرابر کرنا درست نہ ہوگا اور آپ کی زکوة ادا نہ ہوگی، البتہ اگر وہ کبھی دستیاب ہوجائے اور شرعاً مستحق زکوة ہو تو اسے زکوة کی رقم دے کر اس سے وہ رقم اپنے قرضہ میں وصول کرلینا جائز ہوگا، اور اگر وہ نہ دے تو زبردستی لینے کی بھی اجازت ہوگی، ولا یجزیٴ عن الزکاة دین أبریٴ عنہ فقیر بننیتھا (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوي، کتا الزکاة، ص۷۱۷، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) ، والحیلة أن یعطي المدیون زکاتہ ثم یأخذھا عن دینہ، ولو امتنع المدیون مد یدہ وأخذھا الخ (حاشیة الطحطاوی علی المراقي ص ۷۱۵) ، ومثلہ فی الدر المختار مع رد المحتار (کتاب الزکاة، ۳: ۱۹۱۱۹۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔ (۴) : اس کا جواب نمبر ایک اور دو کے مانند ہے۔ اور اگر وہ شخص واقعی طور پر تنگ دست ومحتاج ہو اور آپ مالی اعتبار سے ٹھیک ٹھاک ہوں تو قرضہ کی رقم معاف کردینا بہتر اور بہت زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے، قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے: وأن تصدقوا خیر لکم إن کنتم تعلمون (سورة البقرة، الآیة: ۲۸۰) ، یعنی: اگر قرض خواہ تنگدست ہو تو اس کا قرضہ معاف کردینا تم لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم لوگ جانتے ہو۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند