• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 66466

    عنوان: اجرت میں زكاۃ دینا كیسا ہے؟

    سوال: کراچی میں ہمارے پیش امام کی تنخواہ اتنی ہے کہ جس سے وہ صرف گھر کا کرایہ بجلی گیس کا بل اور ماہانہ دودھ کے پیسے اور بچوں کے اسکول ٹیوشن کی فیس دے پاتا ہے ۔ باقی پورے ماہ کا راشن گھر کا خرچہ دواوَں کے لیے کچھ ساتھی پیش امام کو زکاة کے پیسے دیتے ہیں۔ پیش امام صاحب ڈھائی لاکھ روپئے کے مقروض بھی ہیں اور اپنا مکان بھی نہیں۔ کیا پیش امام صاحب کیلئے زکوت لینا جائز ہے ؟ جبکہ پیش امام صاحب کی بیوی کے پاس دس لاکھ روپئے کا پہلے سونا تھا ، وہ اس کی زکاة بھی غریب طلبہ کو دیتی تھی اور اب سارا سونا بیچ کر ایک جگہ کاروبار میں دے دیئے ہیں جس کی زکاة اب بھی ہر سال غریب طلبہ کو دیتی ہے ۔ پیش امام کی بیوی کا ارادہ یہ ہے کہ دس لاکھ روپئے کاروبار میں لگ کر کچھ بڑھ جائیں تو چھوٹا سا اپنے لیے مکان لیں گے ۔ ایسی صورت میں ہم پیش امام صاحب کو زکاة کے پیسے دے سکتے ہیں جسے وہ خود پر اپنی بیوی اور بچوں پر خرچ کریں؟

    جواب نمبر: 66466

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 924-924/M=9/1437 امامت کی تنخواہ او راجرت میں زکوة دینا تو صحیح نہیں ہے البتہ امام مذکور اگر مقروض او رمستحق زکوة ہیں تو الگ سے ان کو زکوة دی جاسکتی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند