عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 66338
جواب نمبر: 66338
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 928-912/N=9/1437
(۱، ۲) : اگر آپ نے یہ زمین آئندہ فروخت کرنے کی نیت سے خریدی ہے اور ابھی بھی آپ کی یہ نیت باقی ہے تو شرعاً یہ مال تجارت ہے، آپ پر ہر سال اس کی زکوة واجب ہوگی۔ اور زکوة میں چوں کہ چالیسواں حصہ واجب ہوتا ہے اور زکوة میں قیمت ادا کرنے کی صورت میں ادائیگی کے دن کی قیمت کا اعتبار ہوتا ہے؛ اس لیے اگر آپ بیچنے کی نیت سے خریدی ہوئی زمین کی زکوة روپے پیسے کی شکل میں ادا کرنا چاہیں تو ادائیگی کے دن مارکیٹ میں زمین کی جو قیمت ہو، اس کا چالیسواں حصہ ادا کردیں، مثلاً چاند کے حساب سے سال مکمل ہونے پر زمین کی قیمت ۲۵/ لاکھ روپے ہوتی ہے تو آپ کو اس وقت زکوة میں اس کا چالیسواں حصہ، یعنی: 62500.00 ادا کرنا ہوگا۔ اور اگر کوئی صاحب نصاب شخص سال مکمل ہونے سے پہلے پیشگی زکوة ادا کرنا چاہے تو یہ بھی درست ہے، اس صورت میں بھی ادائیگی کے دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا، لا زکاة فی اللآلیٴ والجواھر وإن ساوت ألفاً اتفاقاً إلا أن تکون للتجارة، والأصل أن ما عدا الحجرین والسوائم إنما یزکي بنیة التجارة الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، ۳: ۱۹۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ولو عجل ذو نصاب زکاتہ لسنین أو لنصب صح لوجود السبب (المصدر السابق، ص ۲۲۰، ۲۲۱)۔ وقال في غنیة ذوی الأحکام (۱: ۱۸۱، ط: کراتشي) : والخلاف في زکاة المال فتعتبر القیمة وقت الأداء في زکاة المال علی قولھما وھو الأظھر، وقال أبو حنیفة: یوم الوجوب کما فی البرھان (غنیة ذوی الأحکام ۱: ۱۸۱، ط: کراتشي)،۔ نیز فتاوی دار العلوم دیوبند (۶: ۱۳۱، ۱۴۵، سوال: ۱۹۶، ۲۲۱، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم دیوبند)، فتاوی محمودیہ (جدید ڈابھیل، کتاب الزکوة) اور فتاوی عثمانی (۲: ۵۰، ۵۴، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی) وغیرہ دیکھیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند