• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 65499

    عنوان: زکوة کے لئے مملوک ہونا شرط ہے یا مقبوض ہونا بھی شرط ہے ؟

    سوال: سوال: صورت اول:ایک صاحب یکم رمضان کو زکوٰة اداکرتے ہیں یعنی ان کے سال ہوراہونے کی تاریخ یکم رمضان ہے ۔وہ کاروباری آدمی ہیں۔26شعبان کو انہوں نے 50 ہزار کا مال تین دن کے ادھار پر فروخت کردیاتوکیاوہ یکم رمضان کو اس 50 ہزار کی بھی زکوٰة اداکریں گے حالانکہ وہ 50ہزار اگرچہ مملوک تو ہیں لیکن مقبوض نہیں ہیں۔اس صورت کاکیاحکم ہے ؟ صورت ثانیہ:ایک آدمی نے 50 ہزار میں استصناع کا معاملہ کیاہے ۔مستصنع نے معاملہ کرتے وقت 30 ہزار ایڈوانس دے دیا۔اس 30 ہزارکی زکوة صانع پر یا مستصنع پر ہے ؟اور سامان صانع نے ابھی تیار کرکے دیناہے تواس کی زکوٰة صانع پر ہے یا مستصنع پر ہے ؟ صورت ثالثہ:عربون کی زکوٰة کس کے ذمے ہے ؟ٹوکن منی پر زکوٰة کس کے ذمے ہے ؟سیکیورٹی کی رقم پر زکوٰة کس کے ذمے ہے ؟

    جواب نمبر: 65499

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 951-1008/Sn=9/1438

    (۱) صورت مسئولہ میں یہ صاحب یکم رمضان کو جب زکات کا حساب کریں گے اس وقت دیگر قابل زکات مال کے ساتھ اس پچاس ہزار روپئے کو بھی شامل کرکے حساب کرنا ضروری ہے؛ کیوں کہ یہ مالِ تجارت کا بدل اور مالِ تجارت کے بدل میں بہرحال زکات واجب ہے اگرچہ وہ ہنوز قبضے میں نہ آیا ہو؛ البتہ اس پچاس ہزار روپئے کی جتنی زکات بنتی ہو اس کو اس وقت ادا کرنا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ جب وصول ہوجائے اس وقت ضروری ہے، اگر وصول ہونے میں ایک سے زائد سال لگ جائے تو وصولیابی کے بعد تمام سنین ماضیہ کی زکات ادا کرنی ہوگی۔

    (۲) اس رقم کا مالک صانع ہے اور صانع ہی پر اس کی زکات واجب ہے۔ الثمن المدفوع مقدّمًا عند إبرام العقد مملوک للصانع یجوز لہ الانتفاع والاسترباح وتجب علیہ الزکاة فیہ․․․․ تخریجًا للثمن المقدم فی الاستصناع علی الأجرة المقدمة أو ما اشترط تعجیلہ (فقہ البیوع، ۱/۶۰۶، ط: دار المعارف، دیوبند)

    (۳) مستصنع کو سپرد کرنے سے پہلے سامان کا مالک صانع ہے ہے؛ لہٰذا صانع پر ہی اس کی زکاة حسب شرائط لازم ہوگی۔ والمصنوع قبل التسلیم ملک للصانع؛ ولہٰذا ذکر الفقہاء أنہ یجوز لہ أن یبیعہ من غیرہ کما في الدر المختار فصح بیع الصانع لمصنوعہ قبل روٴیة آخرہ وعلّق علیہ ابن عابدین بقولہ ”الأولی قبل اختیارہ؛ لأن مدار تعینہ لہ علی اختیارہ وہو یتحقق بقبضہ قبل الروٴیة الخ (فقہ البیوع: ۱/۶۰۱،ط: دار المعارف)

    (۴) ایجاب وقبول مکمل ہونے کے بعد مشتری بائع کو ثمن کا جو حصہ پیشگی دیدیتا ہے اس کا مالک بائع ہے؛ لہٰذا اس کی زکات بھی بائع پر ہوگی۔

    (۵) ٹوکن منی کی پوری حقیقت لکھیں، پھر ان شاء اللہ حکم تحریر کیا جائے گا۔

    (۶) کن شرائط کے ساتھ موجر اور مستاجر کے درمیان معاملہ ہوا؟ یعنی سیکیوریٹی کی واپسی، کرایہ میں بتدریج کٹوتی، اسی طرح کی وجہ سے کرایہ میں کمی وغیرہ جو کچھ بھی معاملہ باہم طے ہوا ہو اس کی وضاحت کی جائے ، پھر ان شاء اللہ اس سوال کا حکم شرعی تحریر کیا جائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند