• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 62187

    عنوان: صدقہ کے مال میں سے بیجا خرچ

    سوال: میں خلیجی ملک میں رہتا ہوں۔ الحمد للہ بہت سارے لوگ ضرورت کے وقت مدد کے لئے رابطہ کرتے ہیں۔ میں یہاں موجود لوگوں سے کچھ پیسے جمع کر کے بھیجتا ہوں لیکن ایک آدمی جو مدد کے لئے ہم سے رابطہ کرتا ہے جس کے نام پر پیسے لیا ہے اس کو محض چند ہزار روپے دے کر باقی خود ہی رکھ لیتے ہیں۔ مزید وضاحت کے لئے عرض ہے کہ محمد نے فون پر بتایا کہ احمد کافی بیمار ہے اور علاج کے لئے پیسے نہیں ہیں ان کے پاس اور ان کو 2 لاکھ کی سخت ضرورت ہے ۔ توعبداللہ نے اہل خیر حضرات سے لیکر محمد کو 2 لاکھ روپے بھیج دیا۔ لیکن محمد نے احمد کو 72 ہزار دیا اور باقی خود ہضم کر گئے ۔ اس میں شریعت کا حکم واضح فرمائیں۔

    جواب نمبر: 62187

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 41-52/N=2/1437-U اہل خیر حضرات نے جس شخص کی امداد کے لیے وہ پیسے بھیجے ہیں، بیچ کے لوگوں کا وہ سارا پیسہ اس مستحق ہی کو پہنچانا ضروری ہے، کسی شخص کے لیے اس میں سے کچھ بھی پیسہ خود رکھ لینا اور اہل خیر حضرات کی منشا کے مطابق سارا پیسہ اصل مستحق کو نہ دینا حرام وناجائز ہے اور یہ ناحق طریقہ پر دوسرے کا مال کھانا ہے قال اللہ تعالی: یأیھا الذین آمنوا لا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل الآیة، ومن یفعل ذلک عدوانا وظلماً فسوف نصلیہ نارا وکان ذلک علی اللہ یسیراً (سورہ، نساء، آیت: ۲۹، ۳۰)، مستفاد: وقال في رد المحتار (کتاب الزکوة ۳: ۱۸۹ ط مکتبة زکریا دیوبند): وھنا الوکیل إنما یستفید التصرف من الموٴکل وقد أمرہ بالدفع إلی فلان فلا یملک الدفع إلی غیرہ کما لو أوصی لزید بکذا لیس للوصي الدفع إلی غیرہ اھ، وقال فی التاتارخانیة (کتاب الزکوة، الفصل التاسع فی المسائل المتعلقة بمعطی الزکاة ۳: ۲۲۹ ط مکتبة زکریا دیوبند): وفیھا - أي فی الیتیمة - سئل عمر الحافظ عن رجل دفع إلی الآخر مالاً، فقال لہ: ”ھذا زکاة مالي فادفعھا إلی فلان“ ، فدفعھا الوکیل إلی آخر ھل یضمن؟ فقال: نعم، لہ التعیین اھ وقال فی البحر الرائق (کتاب الوقف، بیان ألفاظ الوقف ۵: ۳۱۹ ط مکتبة زکریا دیوبند): السادس والعشرون: جعلت حجرتي لدھن سراج المسجد ولم یزد علیہ صارت الحجرة وقفاً علی المسجد کما قال، ولیس للمتولي أن یصرف إلی غیر الدھن کذا فی المحیط اھ، اور فتاوی محمودیہ (جدید ۹: ۴۹۹، سوال: ۴۶۰۳، مطبوعہ: ادارہٴ صدیق، ڈابھیل، گجرات) میں ہے: جب یہ روپے مکتب کے نام مہتمم صاحب کے پاس آئے تو مہتمم صاحب کو حق نہیں تھا کہ کسی غیر آدمی کو دیدیں، غیر آدمی کو دینے کی وجہ سے ان کے ذمہ ضمان لازم ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند