• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 611978

    عنوان:

    زکات کےباب میں حوائج اصلیہ سے زائد ہونے کا کیا مطلب ہے؟

    سوال:

    سوال : زکات کے باب میں یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ جس شخص کے پاس سونا،چاندی، نقدی،یا مال تجارت میں سے ہر ایک نصاب کو پہنچ جائے یا ان چاروں میں سے تھو ڑا تھوڑا ہو اور اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو جائے جو اس کی ضرورت اصلیہ سے زائد ہو تو ایسا شخص صاحب نصاب کہلاتا ہے معلوم یہ کرنا ہے کہ ضرورت اصلیہ سے زائد ہونے کا کیا مطلب ہے ایک دن کا خرچہ مراد ہے یا ایک مہینہ کا میں اس سلسلہ میں بڑی الجھن میں ہوں۔ برائے مہربانی جواب ارسال فرما کر ممنون و مشکور ہوں۔

    جواب نمبر: 611978

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1226-185T/B=11/1443

     زكاۃ كے معاملہ میں حوائج ضروریہ كا مصداق روپیہ پیسہ نہیں‏، بلكہ استعمالی چیزیں ہیں‏، مثلاً كپڑے مكان وغیرہ‏، اور روپیہ پیسہ خواہ ضرورت كے بقدر ہو یا ضرورت سے زائد ہو سب میں بلاكسی فرق كےزكاۃ واجب ہوتی ہے۔ فَاضِلًا عَنْ مَسْكَنِهِ، وَخَادِمِهِ، وَفَرَسِهِ، وَسِلَاحِهِ، وَثِيَابِهِ، وَأَثَاثِهِ، وَنَفَقَةِ عِيَالِهِ، وَخَدَمِهِ، وَكُسْوَتِهِمْ، وَقَضَاءِ دُيُونِهِ. (بدائع: 2/297، ط: زكريا)

    قوله: فارغ عن حاجته الأصلية: لأن المشغول بها كالمعدوم، وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقاً كثيابه كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب والثياب والمحتاج إليها لدفع الحر أو البرد أو تقديراً كالدين وآلات الحرفة وأثاث المنزل ودواب الركوب وكتب العلم لأهلها، فإذا كان له دراهم مستحقة بصرفها إلى تلك الحوائج صارت كالمعدومة. (درمختار مع الشامي: 3/174-179 ط: زكريا، نیز دیكھیں: كتاب النوازل: 6/462، ط: المركز العلمي).


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند