عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 610752
کیا فرماتے ہیں علما کرام اس مسئلے کے بارے میں مجھے اور میرے بھائی کو والد مرحوم کی وراثت میں سے جو رقم ملی ہم دونوں بھائیوں نے مل کر برابر ی کی بنیاد پر تین پلاٹ خریدے سن ٢٠١٨ کے جنوری میں ایک خریدا اور ایک ٢٠١٨ ستمبر میں اور تیسرا جنوری ٢٠١٩ میں ہم دونوں بھائیوں کی نیت یہ تھی کہ جب ان پلاٹوں کی ویلیو بڑھے گی تو ہم اپنا اپنا گھر خریدیں گے اور کچھ حصہ کاروبار میں لگائیں گےکیوں کہ اس وقت جو رقم ہمارے حصوں میں آئی تھی اس میں گھر خریدنا جیسا ہمیں درکار تھا مشکل تھا آپ سے رہنمائی درکار ہے کہ کیا ان پلاٹوں پر زکا ۃ واجب ہوگی اگر ہاں تو کس وقت سے واجب ہو گی پلاٹ ابھی تک بیچا کوئی نہیں ہے براہ کرم ہماری رہنمائی فرمائیں اور قرآن و سنت کی روشنی میں اس مسئلے کا حل مرحمت فرمائیں اللّه کریم آپ کے علم میں خوب اضافہ فرمائیں ۔ جزاک اللّه
جواب نمبر: 610752
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1147-957/L=9/1443
اگر آپ دونوں بھائیوں نے وہ پلاٹ بیچنے كی نیت سے ہی خریدے ہیں تو ان كی مالیت پر زكوة واجب ہوگی ، اس كی جتنی مالیت بنتی ہو سال گزرنے پر اس كی زكوة ادا كردی جائے ، بوقتِ ادائیگی زكوة ان پلاٹوں كی ماركیٹ میں جو قیمت بنتی ہو اس كے حساب سے زكوة ادا كی جائے اور اگر كئی سال گذر چكے ہیں تو ہر سال كی زكوة ادا كی جائے۔
وأما صفة هذا النصاب فهي أن يكون معدا للتجارة وهو أن يمسكها للتجارة وذلك بنية التجارة مقارنة لعمل التجارة لما ذكرنا فيما تقدم بخلاف الذهب والفضة فإنه لا يحتاج فيهما إلى نية التجارة؛ لأنها معدة للتجارة بأصل الخلقة فلا حاجة إلى إعداد العبد ويوجد الإعداد منه دلالة على ما مر.[بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 2/ 21]والأصل أن ما عدا الحجرين والسوائم إنما يزكى بنية التجارة.[الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 2/ 273]
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند