عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 610318
مہر کی زکاۃ کس کے ذمہ ہے؟
سوال : میرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی شوہر نے بیوی کو حق مہر کچھ سال تک ادا نہیں کیا تو کیا اس حق مہر کے مل جانے پر بیوی کو پچھلے سب سال اور آنے والے سال کی زکوۃ ادا کرنی چاہیے؟ یا پھر شوہر اپنی بیوی کی طرف سے اس پر زکوۃ ادا کرے؟
جواب نمبر: 61031810-Mar-2022 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1056-746/H=08/1443
جب بیوی كو مہر مل جائے اُس وقت سے بیوی پر حسب شرائط زكاۃ كا حكم متوجہ ہوگا ملنے سے پہلے سالوں كی زكاۃ بیوی پر واجب نہیں بلكہ جس كی ملكیت میں وہ مہر (رقم وغیرہ) تھی زكاۃ كا اُسی سے حكم متعلق تھا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میں
بیرو ن ملک کام کرتاہوں۔ میں اپنے والد صاحب کو ہر مہینہ پیسہ بھیجتاہوں۔گزشتہ
مہینہ تک جو کچھ میں نے اپنے والد صاحب کو بھیجا انھوں نے اس سے قرض ادا کردیا
اوراس مہینہ سے میں قرض سے نکل چکا ہوں اور پوری تنخواہ جو کہ میں کمارہاہوں اس کو
اپنے مستقبل کے لیے بچا رہاہوں (حج ادا کرنے کے لیے، اپنی زمین خریدنے کے لیے،
شادی کرنے کے لیے)۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنی تنخواہ سے ڈھائی فیصد زکوة
نکال سکتاہوں اور جس مہینہ میں مجھ کو تنخواہ ملتی ہے اسی میں دے سکتاہوں؟یہ ان
زیورات کے علاوہ ہوگی جو کہ میرے گھر میں ہیں جس کی زکوة میں علیحدہ طور پر ادا
کروں گا۔ برائے کرم مجھ کو بتائیں کہ زکوة کیسے ادا کی جاتی ہے کیوں کہ اب میں
نصاب کو پہنچ رہا ہوں؟
جس كی گذر بسر ہوجاتی ہو اسے زكاۃ نہیں لینا چاہیے
8844 مناظریتیم بیمار لڑکی کو زکات کی رقم دینا جبکہ وہ مالک نصاب ہو
2461 مناظرمیرے
والد صاحب کا جنوری 2004میں انتقال ہوا۔ وراثت کی کاروائی کے بعد اب (دسمبر2009)
میں مجھ کو ان کاپیسہ مل رہا ہے جو کہ تقریباً تین لاکھ ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ
کیامجھ کو ماضی کی یعنی (2005-2009) تک کی زکوة ادا کرنی ہوگی؟ انھوں نے اپنے
انتقال سے پہلے زکوة ادا کی ہے۔(۲)میں
نوکری کرتا ہوں۔میں چھ ہزار روپیہ ہر ماہ تنخواہ اٹھاتا ہوں او رہر ماہ دو ہزار سے
تین ہزار روپیہ (یعنی سالانہ چوبیس سے تیس ہزار روپیہ سالانہ) بچاتا ہوں۔ کیا میں
زکوة کا مستحق ہوں؟
كیا سارے بنو ہاشم پر زكاۃ حرام ہے یا اس میں كچھ تفصیل ہے؟
3781 مناظركیا حیلہ كرنے پر زکاة سے چھٹکارا مل سکتاہے؟
2210 مناظرمجھے معلوم ہوا ہے کہ اسلامی فنڈ یا بیت المال بہت ساری جگہوں پر اسلامی اداروں کے ذریعہ سے چلائے جارہے ہیں بشمول دیوبند کے اور دوسری جگہوں کے جیسے نگینہ، علی گڈھ وغیرہ۔ جہاں پر لوگ معمولی کرایہ پر اچھی حفاظت کی خاطر سونے اور چاندی کے زیورات بطور امانت کے رکھ سکتے ہیں۔اور سونے کے زیورات پرقرض بھی دیا جاتا ہے اور ادھار لینے والے سے صرف ان کے سامان کی حفاظت اور سیکورٹی کی قیمت لی جاتی ہے۔ہمارے شہر کے کچھ ہم خیال لوگ اسی طرح کا ایک نظام شروع کرنا چاہتے ہیں (ان شاء اللہ) جس کے ذریعہ وہ غریب اور ضرورت مند مسلمانوں کی مدد کریں گے۔ اس میں ان کوقیمتی اشیاء کے مقابلے میں قرض فراہم کریں گے اور وہ تحفظ کے طور پر صرف معمولی چارج وصول کریں گے جس سے ادارہ چلانے میں ہونے والے اخراجات کو پورا کیا جاسکے اور وہ کسی قسم کا کوئی منافع نہیں لیں گے۔ ہم اس ادارہ کو چلانے کے لیے لوگوں سے زکوة وصول کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس پروجیکٹ کی ایک مختصر رپورٹ بھی تیار کی ہے۔ جب میں نے اپنی جامع مسجد کے امام صاحب سے رابطہ قائم کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ حرام ہے۔برائے کرم اس معاملہ میں میری رہنمائی فرماویں۔ اگر ضرورت پڑی تو میں یہ رپورٹ دارالافتاء بھیج سکتا ہوں(برائے کرم مجھے طریقہ بتادیں کہ کیا میں اس کو انٹرنیٹ کے ذریعہ سے بھیج سکتاہوں)؟
4964 مناظر