• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 610032

    عنوان:

    زکات‏، قربانی اور صدقہٴ فطر کے وجوب کے سلسلے میں حاجت اصلیہ کی مثالوں سے وضاحت

    سوال:

    سوال : کیا فرماتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس دو ٹی وی یا دو سواری، اسی طرح دو بیڈ، دو سے زائد گھڑیاں وغیرہوں تو کیا ان اشیاء کو حاجتِ اصلیہ میں شمار کیا جائے گا؟ اور اسی طرح گھر میں موجود کباڑ وغیرہ۔ مزید یہ کہ میرے پاس کچھ ورزش کا سامان بھی ہے اور گھر میں استعمال ہونے والے اوزار بھی ہیں اور اسی طرح گھر کا کرایہ جو دینا ہے، بچوں کے اسکول و وین کی فیس، گھر کا راشن وغیرہ جیسی اشیاء حاجتِ اصلیہ میں شمار کی جائیں گی؟ برائے کرم جواب عنایت فرما دیں۔ عین نوازش ہوگی۔ جزاک اللّٰه

    جواب نمبر: 610032

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 813-207T/D=07/1443

     وجوبِ زكاۃ كے لئے چونكہ ’’مالِ نامی‘‘ (مالِ تجارت‏، سونا و چاندی) ہونا شرط ہے؛ لہٰذا مذكورہ فی السوال دو سواری‏، دو بیڈ‏، ورزش كے سامان‏، اوزار وغیرہ میں بہرحال زكاۃ واجب نہیں ہے‏، اگرچہ حوائج اصلیہ سے زائد ہوں؛ كیونكہ ان میں سے كوئی بھی چیز ’’مالِ نامی‘‘ نہیں ہے؛ البتہ صدقہ فطر وجوبِ قربانی كے لئے ’’مال نامی‘‘ ہونا شرط نہیں ہے‏؛ بلكہ حوائج اصلیہ سے زائد سامان اگر بقدرِ نصاب پہونچ جائے تو صدقہ فطر و قربانی واجب ہوجائے گی اور حوائج اصلیہ میں وہ تمام چیزیں شامل ہوں گی جو انسان كے زیر استعمال ہوں اور وقتاً فوقتاً ان كی ضرورت پڑتی ہو؛ البتہ ہر زمانہ میں ضرورت كی نوعیت مختلف ہوتی ہے‏، اسی طرح اشخاص كے اعتبار سے بھی ضرورت مختلف ہوسكتی ہے؛ لہٰذا اگر آپ كے پاس مثلاً دو گاڑیاں ہیں جنھیں ادل بدل كر استعمال كرتے ہیں تو دونوں ضرورت اصلیہ میں داخل ہیں‏، اسی طرح گھر كا راشن‏، اوزار‏، كباڑ‏، ورزش كے سامان كپڑے وغیرہ حوائج اصلیہ میں داخل ہیں ہاں اگر دو گاڑیاں ہیں یا دو گھڑیاں اور آپ ایك ہی استعمال كرتے ہیں اور دوسری بیكار پڑی رہتی ہے تو یہ دوسری گاڑی یا گھڑی ضرورت سے زائد شمار ہوگی؛ البتہ اسكول و وین فیس‏، اسی طرح گھر كا كرایہ اگر واجب الاداء ہوں تو یہ دین (قرض) كے حكم میں ہوكر منہا ہوجائے گا اور اگر واجب الاداء نہیں ہے بلكہ آپ نے فیس و كرایہ دینے كے لئے الگ سے رقوم جمع كر ركھی ہے تو یہ حوائج اصلیہ میں شمار نہ ہوں گی بلكہ بقدرِ نصاب پہونچ جائے تو صدقہ فطر و قربانی واجب ہوگی اور نصاب كا سال پورا ہونے پر زكاۃ بھی واجب ہوگی۔

    نوٹ:۔ ٹی وی مطلقاً ضرورت سےزائد سامان كے زمرہ میں آئے گا‏، از روئے شرع نہ ٹی وی دیكھنا جائز ہے اور نہ گھر میں ٹی وی ركھنا جائز ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند