عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 609164
بچت کی تھوڑی تھوڑی رقم ملکر جب نصاب کے برابر ہوگی تو کسی رقم پر سال پورا نہیں گذرا ہوگا تو زکات کب اور کیسے نکالیں گے؟
سوال : سوال۱:میں پورے سال کچھ رقم بچا کر جمع کرتا رہتا ہوں، ہر سال رمضان میں پوری رقم جو جمع ہو ظاہر ہے کسی رقم کو بھی سال پورا نہیں ہوتا پھر بھی پوری رقم گن کر جو زکوٰۃ بنتی ہے وہ ادا کردیتا ہو پھر پوری بقیہ پوری رقم خرچ کر دیتا ہو (میرے پاس کوئی ایسی چیز بھی ضرورت سے زائد نہیں جن کا شمار زکوٰۃ میں) میری زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے یا نہیں،اور مجھ پر زکوٰۃ فرض ہوتی بھی ہے یا نہیں؟
۲۔مجھ سے لوگ ادھار مانگ کر پیسے لیتے ہے پھر واپس کرنے کا نام ہی نہیں لیتے کوئی ۰۰۰۱،کوئی ۰۰۵ کوئی زیادہ رقم،کئی لوگوں کو میں بھول بھی گیا ہو،کئی لوگوں کوسالوں گزر گئے دینے کا نام بھی نہیں لیتے،حساب لگایا جائے جن لوگوں کے نام اور رقم یاد ہے وہ زکوٰۃ کی رقم تک پہنچ جاتی ہے (میں ہر سال ادھار رقم اور موجودہ رقم ملا کر حسا ب لگا کر زکوٰۃ دے دیتا تو)پوچھنا یہ ہے جس ادھار رقم کے ملنے کی امید ہی نہ ہو اس کی زکوٰۃ دینی پڑتی ہے یا نہیں؟ اور اگر میں نیت کر کے کسی کو معاف کر دو پھر وہ کبھی اگر پیسے واپس کر ے تو کیا اس کی زکوٰۃ بھی سالوں کا حساب لگا کر نکالنی پڑے گی یا نہیں؟ اس معاملے میں میرے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟
۳۔اگر کسی کی ادھار رقم معاف کرنی ہو تو کیا مقروض کو بتانا ضروری ہے یا دل میں نیت کر کے معاف کرنا کافی ہے؟اور اگر کوئی معاف کرنے کے ۲یا ۳ سال بعد رقم واپس کرے تو اس کی بھی زکوٰۃ نکالنی پڑے گی یا نہیں؟
۴۔ایک صاحب ہمارے علاقے میں سب سے یہ کہ کر پیسے مانگتے ہیں چوکیدارہ کے پیسے،دکانداروں سے اور اکثر لوگوں کے گھروں پر بھی جاتے ہے،رات کو صرف روڈ پرایک بار گھوم کر سیٹی بجا کر بس چلے جاتے ہے،نہ انھیں گورنمنٹ نے رکھا ہے نہ محلیں والوں نے کہاں ہے،اور اگر چوری ہوجائے یا نقصان ہو جائے اس کی بھی ذمہ داری نہیں لیتے،مجھے چوکیداری کی ضرورت نہیں مگر وہ پیچھے لگ کر پیسے مانگتے ہیں،انھیں پیسے دیناتھیک ہے یا نہیں؟
جواب نمبر: 609164
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 682-199T/D=07/1443
(1) رقم جمع ہوكر جب 612 گرام چاندی كی قیمت كے برابر ہوجائے تو آپ صاحب نصاب ہوگئے پھر سال پورا ہونے پر زكاۃ ادا كرنا واجب ہوگا، درمیان سال میں رقم گھٹ جائے یا كتنی ہی بڑھ جائے نصاب كا سال پورا ہونے پر جس قدر رقم ہوگی اس كی زكاۃ ادا كرنا واجب ہوگا، ہر ہر رقم كا سال علیحدہ علیحدہ نہیں شمار كیا جائے گا۔
(2) اگر ادھار رقم كی زكاۃ ابھی ادا نہ كریں بلكہ جب رقم وصول ہو اس وقت وصول شدہ رقم كی زكاۃ ادا كردیں لیكن اگر پچھلے سالوں سے زكاۃ ادا نہیں ہوئی تھی تو حساب كركے پچھلے سالوں كی بھی ادا كردیں۔ آپ ادھار رقم كی زكاۃ بھی فی الحال ادا كردیتے ہیں اس سے بھی زكاۃ ادا ہوجاتی ہے بہتر ہے۔ اور اگر ادھار رقم ملنے كی امید بالكل نہ ہوتو اس كی زكاۃ واجب نہیں ہوتی۔ اگر آپ نے قرض معاف كردیا تو بھی اس كی زكاۃ ساقط ہوگئی۔
(3) اس نے اگر دوبارہ دیدیا تویہ نئی آمدنی ہوگی اس كا سال ازسرنو شمار ہوگا۔ معاف كرنے كے لئے زبان سے كہنا ضروری ہے صرف دل میں خیال كرنا كافی نہیں۔ زبان سے كہہ دیا تو معاف ہوگیا۔ مقروض كو بتانا یا اس كا قبول كرنا ضروری نہیں۔ قال فی الدر: ھبۃ الدین ممن علیہ الدین وإبراءہ عنہ یتم من غیر قبول۔ قال الشامی: كما فیہ معنی الاسقاط۔ (الدر مع الرد: 8/518، زكریا)
(4) جو لوگ ان كے عمل سے مطمئن ہیں اور چوكیداری كے نام پر پیسہ بخوشی دیتے ہیں وہ ان كے لئے لینا جائز ہے، كسی سے زبردستی لینا جب كہ اس نے كوئی معاملہ نہیں كیا درست نہیں ہے، ہاں اگر كسی معاملہ كا پابند ہو تو اس كے مطابق عمل ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند