• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 608006

    عنوان:

    یتیم بیمار لڑکی کو زکات کی رقم دینا جبکہ وہ مالک نصاب ہو

    سوال: میرے بھائی کاانتقال ہوچکا ہے اس کی ایک دس سال کی بیٹی ہے. جوکےجسمانی اور زہنی طورپر بیمار ہ ے اس اعلا ج پر کافی خرچا آتا ہےیے خرچا اسکے ماموں اور نانی کرتی ہیں. بچی کے نام پر کچھ رقم اور چار تولے سوناہے. کیا میں اس بچی کو زکاۃ دےسکتی ہوں.

    جواب نمبر: 608006

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:613-506/H=5/1443

     مذکور فی السوال لڑکی نصاب کے بقدرمال کی مالک ہے ؛لہذا اس کو زکات کی رقم دینے سے زکات ادا نہیں ہوگی ۔اگر وہ اپنی رقم سے یا اپنے سونے وغیرہ کو فروخت کرکے اس سے اپنا علاج کرائے اور جب وہ نصاب سے کم ہوجائے تو پھر مزید علاج کے لیے اس کو زکات دینا جائز ہوگا، یا یہ صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی سے قرض لے کر اپنا علاج معالجہ کرائے اور پھر اگر قرض کی رقم کو منہا کرنے کے بعد اس کی ملکیت میں نصاب سے کم مال بچے تو آپ اس کو قرض کی ادائیگی کے لیے زکات دے دیں،بہتر یہ ہے کہ آپ عطیہ اور نفلی صدقات سے اس کی امداد کریں اس صورت میں متعین مقدار میں مال دینے کی قید بھی نہیں ہوگی ۔

    لایجوز دفع الزکاة إلی من یملک نصاباً أی مال کان، دنانیر أو دراہم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغیر التجارة، فاضلاً عن حاجتہ فی جمیع السنة، ہکذا فی الزاہدی. والشرط أن یکون فاضلاً عن حاجتہ الأصلیة، وہی مسکنہ، وأثاث مسکنہ وثیابہ وخادمہ، ومرکبہ وسلاحہ، ولا یشترط النماء؛ إذ ہو شرط وجوب الزکاة لا الحرمان، کذا فی الکافی. ویجوز دفعہا إلی من یملک أقل من النصاب، وإن کان صحیحاً مکتسباً، کذا فی الزاہدی ...(الفتاوی الہندیة ۱/۲۵۱ کتاب الزکاة:الباب السابع فی المصارف ،ط:اتحاد)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند