• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 607005

    عنوان:

    ایک تولہ سونے کے ساتھ روپیے پیسے بھی ہوں تو کیا زکاۃ واجب ہوگی؟

    سوال:

    سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں مسئلہ بتانے سے پہلے آپ سے بہت ہی زیادہ مؤدبانہ درخواست ہے کہ اس مسئلہ کے بارے میں مکمل طور پر تفصیلی رہنمائی فرمائیں کیونکہ اس کا حل کرنا بہت اہم اور ضروری ہے مسئلہ: عابد کی شادی2011 اپریل میں ہوئی ہے شادی میں عابد کی بیوی کو اس کی ماں کے گھر سے ( یعنی میکے سے ) ایک تولہ سونے کا زیور اور چاندی کی ایک پایل ملی جو تقریباً ایک تولہ کی یا اس سے تھوڑا زیادہ کی ہے اور عابد کے گھر سے (یعنی سسرال سے ) دو تولہ سونے کا زیور ملا- یعنی سب ملا کر عابد کی بیوی کے پاس شادی کے بعد سے تین تولہ سونے کا زیور اور ایک تولہ یا اس سے تھوڑا زیادہ کی چاندی ہے اور کوئی روپیہ وغیرہ نہیں ہے کیونکہ وہ خاتون خانہ ہے - اور اس وقت2011میں عابد ماہانہ3000تنخواہ پر کام کرتا تھا اور 2012 میں ایک سال پورا ہونے سے تین مہینے پہلے عابد کی ماہانہ تنخواہ 5000ہوگء تھی تو کیا اس صورت مسئلہ میں عابد کی بیوی پر سال پورا ہونے پر زکوٰة واجب ہوگی یا نہیں؟ کیونکہ عابد کا کہنا ہے کہ اس کی معلومات کے مطابق ساڑھے سات تولہ سونا ہونے پر یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہونے پر زکوٰة واجب ہوتی ہے اور آمدنی کا بھی اعتبار ہوتا ہے اور نہ عابد نے اور نہ اس کی بیوی نے ان تمام سالوں میں جو گزر چکا ہے زکوٰة نکالا ہے عابد اور اس کی بیوی کا کہنا ہے کہ اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپ لوگوں پر زکوٰة دینا واجب ہے کیونکہ آپ لوگوں پر نصاب پورا ہوتا ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زکوٰة دینا واجب نہیں ہے نصاب پورا نہیں ہوتا ہے اور عابد کی آمدنی بھی کم ہے اور دو بچے بھی ہیں ایک آٹھ سال کا اور ایک پانچ سال کی عابد کی آمدنی2012 اور2013 میں5000 تھی اور2014 میں5325 تھی اور2015 میں6000تھی اور2016 سے لیکر 2018 تک تینوں سال 7825 تھی اور2019 اور2020 میں 8325 تھی اور2021 میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے 5000 اور اس وقت عابد 80,000 تک کا قرض دار ہے ڈھائی تین سال سے _ اور عابد اور اس کی بیوی یہ تمام اپنے احوال اور مسئلہ تفصیل سے اس لیے نہیں بتارہے ہیں کہ ان دونوں کو زکوٰة دینے یا نکالنے کے بارے میں کوئی نرمی یا رعایت یا حیلہ چاہیے اور نہ ہی اپنے احوال لوگوں کے سامنے بیان کر کے کوئی ہمدردی اور مدد چاہیے بلکہ اس لیے ایک ایک بات بتارہے ہیں تاکہ مسئلہ جاننے اور معلوم کرنے میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی بیشی یا باریکی نہیں رہ جائے جو آخرت میں قابل مواخذہ بنے اور دربار باری تعالیٰ میں شرمندگی کا باعث بنے اگر صورت مسئلہ میں عابد کی بیوی پر زکوٰة واجب ہے تو ان دس سالوں کی زکوٰة عابد یا اس کی بیوی کس طریقے سے ادا کرینگے ۔ کیا ہر سال کی زکوٰة اس سال کی قیمت کے اعتبار سے ادا کرینگے یا اس وقت جو سونے چاندی کی قیمت چل رہی ہے اس کے اعتبار سے ادا کرینگے - کیا پوری زکوٰة ایک ساتھ ادا کرینگے یا اپنی طاقت کے مطابق تھوڑا تھوڑا - معزز مفتیان کرام: آپ حضرات سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ اس مسئلہ کے بارے میں مکمل طور سے تفصیلی جواب دیکر عنداللہ ماجور ہوں_ مسئلہ ۲ : زکوٰة نہیں دینے کے لیے کچھ حضرات جو حیلہ کرتے ہیں کہ چاندی یا سونے کا مالک اپنے نابالغ یا بالغ بچوں کو بنادیتے ہیں چھ ماہ یا کچھ وقت یا مہینوں کے لیے تو کیا اس طرح کے جو سب حیلے ہیں زکوٰة سے بچنے کے لئے تو کیا یہ جائز ہے یا نا جائز ہے اور یہ جو کہتے ہیں صاحب نصاب لوگ کہ ہمارے اوپر قرض ہیں اس لیے ہم پر زکوٰة واجب نہیں ہے بلکہ پہلے قرض ادا کرنا ہے پھر زکوٰة دینا واجب ہے ورنہ معاف ہے کیا یہ ؟مسئلہ صحیح ہے ؟ کیا قرض دار پر واقعی زکوٰة معاف ہے ؟ ۳ : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کے دور میں اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جس کے پاس ایک تولہ سونا ہے اور سو روپیہ ہے اس پر سال پورا ہونے پر زکوٰة واجب ہوتی ہے جو کہ آج کل بہت سے لوگوں کے پاس ہے کیونکہ اس وقت ایک تولہ سونے کا بھاؤ 45,000 روپے کے اوپر ہے اور ایک تولہ چاندی کا بھاؤ 600 روپیہ ہے اس صورت کے اعتبار سے ساڑھے باون تولہ چاندی کا نصاب بنتا ہے اس لیے کہ ساڑھے باون تولہ چاندی کا قیمت کے اعتبار سے اندازہ لگایا جائے تو 32,000 میں آجاتی ہے تو کیااس اعتبار سے جن کے پاس ایک تولہ سونا اور روپیہ ہے تو اس پر زکوٰة واجب ہوگی یا نہیں ؟ برائے مہربانی تفصیلی رہنمائی فرمائیں عین نوازش ہوگی ۔

    جواب نمبر: 607005

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 308-43T/B=04/1443

     شوہر جناب عابد صاحب جس قدر تنخواہ پاتے ہیں سالانہ تمام اخراجات کے بعد اگر ان کے پاس ساڑھے باون (52.5) تولہ چاندی کی مالیت کے برابر رقم بچتی ہے تو ان پر زکاة واجب ہوگی۔ مگر سوال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس نصاب بھر رقم سالانہ نہیں بچتی ہے؛ بلکہ تنخواہ ختم ہوجاتی ہے اور مزید قرض لینا پڑتا ہے یہاں تک کہ اب لاک ڈاوٴن کی وجہ سے 80,000 ہزار اُن پر قرض بھی ہوگیا ہے، تو جناب عابد صاحب پر زکاة واجب نہیں۔ رہا اُن کی بیوی کا مسئلہ تو چونکہ ان کے پاس میکہ سے ملے ہوئے تین تولہ سونے کا زیور، اور ایک تولہ سے کچھ زیادہ چاندی کا زیور ہے تو دونوں کی مالیت اکٹھا ملائی جائے گی، اس صورت میں دونوں کی مالیت ساڑھے باون (52.5) تولہ چاندی کی مالیت سے زیادہ ہوجائے گی اس لئے ان پر زکاة واجب ہوگی۔ جب کسی کے پاس صرف سونا ہو اور نصاب سے کم ہو اور اس کے ساتھ چاندی یا نقد نہ ہو جب زکاة واجب نہیں ہوتی۔ لیکن اگر تھوڑا سونا ہو اور تھوڑی چاندی ہو تو پھر دونوں کی قیمت ملائی جائے گی اگر نصاب کے بقدر پہونچتی ہے توزکاة واجب ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس ایک تولہ سونا ہے اور سو (100) روپئے نقد ہیں تو بھی دونوں کی مالیت ملائی جائے گی اور بقدر نصاب پہونچ جائے تو زکاة واجب ہوگی۔ اگر صاحب نصاب کے پاس اتنا قرض ہے کہ اسے منہا کیا جائے تو نصاب باقی نہیں رہتا تو اس پر زکاة واجب نہ ہوگی۔ زکاة سے بچنے کے لئے یہ حیلہ کرنا کہ چار چھ مہینے کے لیے اپنے کسی عزیز کی تحویل میں دینا جائز نہیں۔ اللہ تعالی کو سب کی نیتوں کا حال معلوم ہے، غالباً آپ کے تمام سوالات کا جواب آگیا، اگر کوئی بات تشنہ رہ گئی ہو تو دوبارہ پوچھ سکتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند