• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 605972

    عنوان:

    کیا ترکہ میں زکاۃ واجب ہوتی ہے؟

    سوال:

    میری والد صاحب کا ۲۰۲۰-۴-۲۵کو انتقال ہوگیا تھا۔ اُن کا سامان ابھی تک ہم نے کھولا نہیں ہے۔ جب وہ سامان کھولیں تو جو پیسے اور زیورات ہوں گے تو اس کی گزشتہ سال اور اس سال کی زکاة کیسے ادا کی جائیگی۔ نوٹ:- ہم ۲بھائی اور ۳بہنیں ہیں۔

    جواب نمبر: 605972

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:22-60T/sn=3/1443

     صورت مسئولہ میں اگر آپ کے والد صاحب پر انتقال سے پہلے زکات واجب تھی اور انہوں نے اداء نہیں کی تھی اور نہ اس کی ادائے گی کی وصیت کی تھی ، تو ان کے ترکہ سے ورثاء پر ان کی زکات کی ادائے گی واجب نہیں ہے؛ ہاں اگر ورثاء باہمی رضامندی سے اداء کردیں تو امید ہے کہ والد صاحب ماخوذ نہیں ہوں گے ۔

    قال الحصکفی: (وأما دین اللہ تعالی فإن أوصی بہ وجب تنفیذہ من ثلث الباقی وإلا لا۔ قال ابن عابدین: (قولہ وأما دین اللہ تعالی إلخ) محترز قولہ من جہة العباد وذلک کالزکاة والکفارات ونحوہا قال الزیلعی فإنہا تسقط بالموت فلا یلزم الورثة أداوٴہا إلا إذا أوصی بہا؛ أو تبرعوا بہا ہم من عندہم، لأن الرکن فی العبادات نیة المکلف وفعلہ، وقد فات بموتہ فلا یتصور بقاء الواجب اہ وتمامہ فیہ۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۴۶۰/۶، دار الفکر، بیروت )

    اور ترکہ کی تقسیم سے پہلے ورثاء پر اس کی زکات واجب نہیں ہوتی ہے، جب تک وراثت تقسیم ہوکر ورثہ کے قبضہ میں نہ آجائے زکوٰة واجب نہ ہوگی؛ اس لیے کہ وجوب زکوٰة کے لئے ملک تام شرط ہے، پس صورت مسئولہ میں تقسیم ترکہ سے پہلے گذشتہ سالوں کی زکات ورثاء کے ذمہ واجب نہیں ہے۔ (امداد المفتیین، ص: ۳۹۷)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند