• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 605276

    عنوان:

    زكاۃ كے پیسے سے قرض ادا كرنا؟

    سوال:

    ایک بیواہ ہے ضرورت مند جو برتن دھونے کر گزار کرتی ہے اس نے اپنے لیے جگہ خریدنے کے لیے تھو رے پیسے دیے ہے اور باقی جلد دینے ہیے تو وہ زکوة کی رقم سے باقی کی رقم دے سکتی ہے کیا؟

    جواب نمبر: 605276

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:798-633/N=11/1442

     اگر یہ بیوہ شرعاً مستحق زکوة ہے، یعنی: سید خاندان سے نہیں ہے اور اُس کی ملکیت میں سونا، چاندی، کرنسی، مال تجارت اور حوائج اصلیہ سے زائد کسی بھی سامان سے نصاب کی مقدار نہیں ہے یاوہ مقروض ہے اور قرضہ کی ادائیگی کے بعد صاحب نصاب نہیں رہتی تو اُسے زکوة دی جاسکتی ہے؛ البتہ یک مشت اتنی زکوة نہ دی جائے کہ وہ قرضہ کی ادائیگی کے بعد بھی صاحب نصاب رہے؛ کیوں کہ یہ مکروہ وممنوع ہے۔

    قال اللّٰہ تعالی: ﴿إنما الصدقت للفقراء والمساکین﴾ الآیة (سورة التوبة، رقم الآیة:۶۰)۔

    (و) لا إلی (غني) یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیة من أي مال کان إلخ،……(و)لا إلی (بنی ھاشم)إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۹۵-۲۹۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۶: ۱۰۰ - ۱۰۷، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قال محمد فی الأصل: إذا أعطی من زکاتہ مأتي درہم أو ألف درہم إلی فقیر واحد، فإن کان علیہ دین مقدار ما دفع إلیہ، وفی الخانیة: أو یبقی دون المائتین، م : أو کان صاحب عیال یحتاج إلی الإنفاق علیہم فإنہ یجوز ولایکرہ، وإن لم یکن علیہ دین ولا صاحب عیال؛ فإنہ یجوز عند أصحابنا الثلاثة ویکرہ إلخ (الفتاوی التاتار خانیة،کتاب الزکاة، الفصل الثامن في المسائل المتعلقة بمن توضع فیہ الزکاة، ۳: ۲۲۱، ۲۲۲،ط: مکتبة زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند