• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 604792

    عنوان:

    كیا حیلہ كرنے پر زکاة سے چھٹکارا مل سکتاہے؟

    سوال:

    عبدالروف نے ۱۴ربیع الثانی کو دو تولہ سونا اور چالیس تولہ چاندی کا ملک بن کر صاحب نصاب بنا، لیکن وہ اگلے سال کے دو ربیع الثانی کو ان سونا چاندی کو بیچ کر پیسوں میں تبدیل کرلیا اور جمای الاول کی بیس تاریخ کو پھر سے سونا اور چاندی خریدی لی،تو کیا ایسا کرنے سے زکاة دینے سے بچ جائے گا؟ ہمارے ایک مفتی صاحب نے اس کو ایک حیلہ بتاتے ہوئے کہ وہ سونا چاندی جس کی وجہ سے وہ صاحب نصاب بنا ، اب اس کے پاس نہیں اور جو پیسہ اس کے بیچ کر آئے ہیں وہ صرف ایک مہینہ پہلے ہی حاصل ہوئے کہہ کر اس کو زکاة نہ دینے کی گنجائش قرار دی۔

    میرا سوال یہ ہے کہ کیا وہ صاحب نصاب ہونے کے سال بعد بھی صاحب نصاب نہیں رہا؟ البتہ اس کے مال کی شکل بدلی ، کیا صرف انتہائی حیلے پر زکاة سے چھٹکارا مل سکتاہے؟ براہ کرم، تفصیلی جواب دیں۔

    جواب نمبر: 604792

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:945-764/L=10/1442

     ایسا حیلہ کرنا جس سے حقِ شرعی کا ابطال لازم آئے ، یہ حرام اور ناجائز ہے ہوسکتا ہے کہ اس کا وبال ترکِ زکاة کے وبال سے زیادہ بڑا ہو (معارف القرآن ۷/۵۲۳ ) وقال العلامة العینی رحمہ اللہ تعالی:وأما الاحتیال لإبطال حق المسلم فإثم وعدوان.(عمدة القاری:34/469) البتہ آپ کی ذکر کردہ صورت میں جب یہ شخص سونے چاندی کو روپیہ پیسے سے تبدیل کررہا ہے ، تو اس صورت میں اگرچہ سونے چاندی کا نصاب اس کے پاس نہیں رہیگا البتہ وہ رقم جو اس سونے یا چاندی کو فروخت کرنے کی وجہ سے اس کے پاس آئی ہے وہ سونے چاندی کے قائم مقام ہوجائے گی اور اس پر حسبِ شرائظ زکاة واجب ہوگی ؛ کیونکہ زکاة کے باب میں موجودہ کرنسی سونے ، چاندی کی جنس سے شمار ہوتی ہے ، پس یہ ایسا ہی ہوگیا جیسا کہ سونے یا چاندی کا ایک قسم کا زیور فروخت کرکے دوسری قسم کا زیور لے لیا جائے۔ والمستفاد ولو بھبة أو إرث وسط الحول یضم إلی نصاب من جنسہ فیزکیہ بحول الأصل (لدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب زکاة الغنم، ۳: ۲۱۴)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند