• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 603714

    عنوان:

    اگر كسی كی دكان میں 5 لاكھ كا مال ہے‏، مگر وہ تیرہ لاكھ كا مقروض ہے تو زكات لے سكتا ہے یا نہیں؟

    سوال:

    رمضان میں ہمارے شہر کے صاحب سروت حضرات۔ علمائے کرام اور ائمہ حضرات کو تعاون کے طور پر رقم دیتے ہیں بعض حضرات زکوٰة بھی دیتے ہیں ،اب سوال یہ ہے بندہ امامت کے ساتھ تجارت بھی کرتا ہے اور بندہ تقریباً ۳لاکھ روپے کا مقروض ہے یہاں تک کہ بیوی کا زیور گروی میں رکھا ہوں لیکن دکان میں 5لاکھ کے قریب مال ہے کیا بندہ رمضان میں زکوٰة لے سکتا ہے ؟ کیا لیکر کسی غریب کو دیے سکتا ہے ؟ لینے سے یا لیکر غریب کو دینے سے دینے والوں کی زکوٰة ادا ہو جائے گی؟ جواب ارسال فرمائیں تو عین نوازش ہوگی۔ 

    جواب نمبر: 603714

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:654-453/sd=8/1442

     صورت مسئولہ میں اگر قرض کے بقدر رقم منہا کرنے کے بعد آپ نصاب کے بقدر مال کے مالک ہیں (جیساکہ سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس دکان میں پانچ لاکھ کے قریب مال ہے) تو آپ کے لیے زکات کی رقم خود استعمال کرنا جائز نہیں ہے، ہاں اگر کوئی آپ کو زکات کی رقم غریبوں میں صرف کرنے کا وکیل بنائے، تو آپ زکات کی رقم لے کر مالک کی منشا کے مطابق غرباء پر تملیکاصرف کرسکتے ہیں، اس میں زکات اداء ہوجائے گی ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند