• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 603614

    عنوان:

    كیا زکوة کی رقم اپنے پاس الگ کرکے رکھ لینے سے زکوة ادا ہوجائے گی؟

    سوال:

    میرا سوال یہ ہے کہ میرے بھائی کا انتقال ہوچکاہے، اور اس کے گھر میں سہارا لگانے والا کوئی بھی نہیں ہے، اس کی ایک بیٹی ہے جو ابھی ساتھ سال کی ہے، جو میرے پاس زکاة کے پیسے نکلتے ہیں ، میں انہیں جمع کرلوں اس کی شادی کے لیے اور جب شادی ہو اس کی ماں کو تب دو ں، کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

    جواب نمبر: 603614

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:449-371/N=6/1442

     زکوة کی رقم اپنے پاس الگ کرکے رکھ لینے سے زکوة ادا نہیں ہوتی؛ بلکہ ادائیگی زکوة کے لیے غریب کو مالک وقابض بنانا ضروری ہوتا ہے؛ لہٰذا اگر آپ ۱۲، ۱۵/ سال تک اپنی زکوة اپنے پاس جمع کرتے رہیں گے، مستحقین کو نہیں دیں گے تو آپ ادائیگی زکوة میں تاخیر کی وجہ سے گنہگار ہوں گے، نیز غریب کو یک مشت زکوة کی اتنی رقم دینا مکروہ ہے کہ وہ (تنہا اس رقم سے یا پہلے سے موجود رقم کے ساتھ مل کر ) صاحب نصاب ہوجائے، اور جب غریب، صاحب نصاب ہوجائے تو دوبارہ غریب ہونے تک اُسے مزید زکوة دینا جائز نہیں ہوتا اور آپ جب بھتیجی کے لیے ۱۲، ۱۵/ سال تک اپنی زکوة جمع کریں گے تو اس میں یہ دونوں یا ایک خرابی ضرور ہوگی، نیز جب وہ آپ کی بھتیجی ہے تو آپ اس کی مدد، عطیہ وامداد سے کریں، اس کے لیے کئی سال تک اپنی زکوة روک کر نہ رکھیں، اور عطیہ وامداد کی صورت میں مقدار نصاب یا مستحق زکوة ہونے کی بھی قید نہ ہوگی، آپ جتنا چاہیں، اُسے یا اُس کی ماں کو دے سکتے ہیں۔

    قال اللّٰہ تعالی: ﴿إنما الصدقت للفقراء والمساکین الآیة﴾ (سورة التوبة، رقم الآیة:۶۰)۔

    (و) لا إلی (غني) یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیة من أي مال کان إلخ،……(و)لا إلی (بنی ھاشم)إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۹۵-۲۹۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۶: ۱۰۰ - ۱۰۷، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    ولا یخرج عن العھدة بالعزل؛ بل بالأداء للفقراء (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، ۳: ۱۸۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۵:، ۴۵۷، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”ولا یخرج عن العھدة بالعزل“: فلو ضاعت لا تسقط عنہ الزکاة ولو مات کانت میراثاً عنہ بخلاف ما إذا ضاعت في ید الساعي؛ لأن یدہ کید الفقراء، بحر عن المحیط (رد المحتار)۔

    قال محمد فی الأصل: إذا أعطی من زکاتہ مأتي درہم أو ألف درہم إلی فقیر واحد، فإن کان علیہ دین مقدار ما دفع إلیہ، وفی الخانیة: أو یبقی دون المائتین، م : أو کان صاحب عیال یحتاج إلی الإنفاق علیہم فإنہ یجوز ولایکرہ، وإن لم یکن علیہ دین ولا صاحب عیال؛ فإنہ یجوز عند أصحابنا الثلاثة ویکرہ إلخ (الفتاوی التاتار خانیة،کتاب الزکاة ، الفصل الثامن في المسائل المتعلقة بمن توضع فیہ الزکاة، ۳: ۲۲۱، ۲۲۲،ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند