عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 60242
جواب نمبر: 60242
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 492-492/Sd=9/1436-U (۱) صورت مسئولہ میں اگر ۲/ رمضان کو وہ صاحب نصاب نہیں تھا، تو شرعاً اس پر اس سال کی زکات واجب نہیں ہوگی اگرچہ ۳/ رمضان کو اس کے پاس نصاب سے زائد مال آگیا ہو، اب اس کی زکات کے حساب کی تاریخ ۳/ رمضان ہوگی اور آئندہ سال ۳/ رمضان کو اگر وہ صاحب نصاب ہے گا تو اس پر زکات فرض ہوگی۔ واضح رہے کہ زکات واجب نہ ہونے کے لیے قصداً مال کو نصاب سے کم کرنے کا حیلہ کرنا مکروہ ہے۔ (۲) صاحب نصاب بننے کے بعد اگر درمیان سال میں کسی کے پاس سے سارا مال ختم ہوجائے تو جس دن وہ دوبارہ صاحب نصاب بنے گا، اسی دن کے اعتبار سے سال گذرنے کا اعتبار کیا جائے گا، پہلی تاریخ کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (۳) جی ہاں! زکات میں کپڑا، چپل، جوتے اور کھانے کی چیزیں بھی دے سکتے ہیں۔ عن نافع أن عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنہ کان یقول: لا تجب في مال زکاة حتی یحول علیہ الحول (الموطا للإمام مالک، رقم: ۶) وقال السرخسي: فتلزمہ الزکاة إذا تم الحول لوجود کمال النصاب فی طرفي الحول مع بقاء شيء منہ في خلال الحول (المبسوط للسرخسي: کتاب نوادر الزکاة) وقال الحصکفي: وشرط کمال النصاب في طرفي الحول في الابتداء للانعقاد وفي الانتہاء للوجوب- فلو ہلک کلہ بطل الحول․ قال ابن عابدین: قولہ: ”فلو ہلک کلہ“ أي في أثناء الحول بطل الحول، حتی لو ا ستفاد فیہ غیرہ، استأنف لہ حولاً جدیدًا (الدر المختار مع رد المحتار: ۳/ ۲۱۴، باب زکاة المال، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت) وعن طاوٴس قال: بعث رسول اللہ صلی اللہ عیہ وسلم معاذًا إلی الیمن، فأمرہ أن یأخذ الصدقة من الحنطة والشعیر، فأخذ العروض والثیاب من الحنطة والشعیر (المصنف لابن أبي شیبة، رقم: ۱۰۴۳۷)․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند