• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 60237

    عنوان: (۱) ہمارے پاس دو لڑکیاں صبح سے شام تک رہتی ہیں جو غریب ہیں، ان کا پورا خرچ میں اٹھاتا ہوں ، ان کو یا ان کے گھر والوں کو کوئی مہینہ نہیں دیتا ہوں، کیا ان پر زکاة کی رقم خرچ کرسکتاہوں؟ (۲) کیا ان لڑکیوں پر بینک سے ملے سود کی رقم خرچ کرسکتاہوں؟ جب کہ اس سے ثواب لینا مقصود نہیں ہے۔

    سوال: (۱) ہمارے پاس دو لڑکیاں صبح سے شام تک رہتی ہیں جو غریب ہیں، ان کا پورا خرچ میں اٹھاتا ہوں ، ان کو یا ان کے گھر والوں کو کوئی مہینہ نہیں دیتا ہوں، کیا ان پر زکاة کی رقم خرچ کرسکتاہوں؟ (۲) کیا ان لڑکیوں پر بینک سے ملے سود کی رقم خرچ کرسکتاہوں؟ جب کہ اس سے ثواب لینا مقصود نہیں ہے۔

    جواب نمبر: 60237

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1158-1180/L=10/1436-U (۱) اگر وہ دونوں لڑکیاں غریب اور مستحق زکاة ہیں اور آپ ان کو زکاة کی رقم دیدیں یا اس سے کوئی چیز خریدکر ان لڑکیوں کو مالک بنادیں تو اتنی زکاة کی ادائیگی ہوجائے گی، اپنے طور پر بغیر ان کی طرف سے وکیل بنائے کوئی ایسا کام کردینا جس میں تملیک (مالک بنانا) نہ پایا جائے زکاة کی ادائیگی کے لیے کافی نہیں؛ کیوں کہ زکاة ودیگر صدقاتِ واجبہ کی رقم میں تملیک ضروری ہے اس کے بغیر زکاة ادا نہیں ہوتی۔ (۲) سود کی رقم کو بھی بلانیت ثواب اوپر مذکور طریقے کے مطابق ان لڑکیوں پر خرچ کرسکتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند