عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 601053
كیا کرائے کی دکان پر زکوة ہے؟
میں نے مفتی صاحب سے یہ پتہ کرنا ہے کہ اگر ہم کچھ دکانوں ، گھروں اور زمین کے مالک ہو اور ہم نے اسے کرائے پر دیا ہوا ہوں تو پھر اس پر زکات واجب ہوگی یا نہیں اور اگر زکوة واجب ہوگی تو کیا زکوة اس کے کرائے پر دی جائے گی یا دکان اور کھر کی قیمت پر ؟
(۲) اگر ہم کوئی دکان یا گھر کرائے پر دیتے ہیں تو اس کی پگڑی لینا جائز ہے یا نہیں گویا ہم کرایہ دار سے کچھ لاکھ روپے لے لیں اور جب وہ ہماری دکان یا گھر چھوڑ دے تو ہم اس کو قیمت واپس لوٹا دیں۔
جواب نمبر: 601053
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:170-138/N=4/1442
(۱): آپ جن دکانوں، گھروں اور زمین کے مالک ہیں، اگر آپ نے انھیں فروخت کرنے کی غرض سے نہیں خریدا ہے ؛ بلکہ کرایہ پر دینے کی نیت سے خریدا ہے یا آپ کو یہ چیزیں وراثت، وصیت یا ہبہ میں ملی ہیں تو ان کی زکوة واجب نہیں؛ کیوں کہ یہ مال تجارت نہیں ہیں؛ البتہ ان سے ماہانہ یا سالانہ جو آمدنی حاصل ہوتی ہے، وہ آپ کی دیگر آمدنی میں شامل ہوگی اور حسب شرائط اس پر زکوة واجب ہوسکتی ہے، یعنی: اگر آپ صاحب نصاب ہوں اور نصاب پر سال گذر جائے تو سال کے ختم پر آپ کے پاس جو کچھ سونا، چاندی،کرنسی اور مال تجارت ہوگا، آپ پر اس کی زکوة واجب ہوگی۔
ولو اشتری قدرواً من سفر یمسکھا أو یوٴاجرھا لا تجب فیھا الزکاة کما لا تجب في بیوت الغلة (الفتاوی الخانیة علی ھامش الفتاوی الھندیة، ۱: ۲۵۱، ط: المطبعة الکبری الأمیریة بولاق، مصر)۔
والمستفاد ولو بھبة أو إرث وسط الحول یضم إلی نصاب من جنسہ فیزکیہ بحول الأصل (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب زکاة الغنم، ۳: ۲۱۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
وشرطہ أي: شرط افتراض أدائھا حولان الحول وھو في ملکہ ( المصدر السابق ، کتاب الزکاة، ص: ۱۸۵)۔
(۲): پگڑی کے نام پر کرایہ دار سے لاکھ، دو لاکھ روپے کی جو رقم لی جائے گی، وہ ذاتی ضروریات میں استعمال کی جائے گی یا بہ طور امانت محفوظ رکھی جائے گی؟ نیز پگڑی کی وجہ سے دکان یا مکان کے اصل کرایہ میں کوئی کمی کی جائے گی یا نہیں، یعنی: اگر پگڑی نہ لی جاتی تو دکان یا مکان کا جو کرایہ ہوتا، پگڑی کی صورت میں کیا وہی کرایہ ہوگا یا اُس سے کم ہوگا؟ اور اگر کم ہوگا تو کتنا کم ہوگا، معمولی یا غیر معمولی؟ اور پگڑی کے لینے میں آپ کا بنیادی مقصد کیا ہوگا؟ تینوں باتیں تفصیل کے ساتھ واضح کریں، پھر إن شاء اللّٰہ اس سوال کا جواب دیا جائے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند