عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 600814
دوڑ کے لیے رکھے گئے پالتو بیلوں پر زکاة کا مسئلہ
میرے ایک دوست احمد کے پاس تین بیل ہیں جن کی مجموعی قیمت وہ 50 لاکھ روپیہ بتاتا ہے ۔ سال میں تین چار بار وہ اپنے بیل کو ایک دوڑ میں شرکت کے لیئے اس نیت سے لے کر جاتا ہے کہ دوڑ میں موجود گاہک اس کے بیل کی اچھی قیمت لگائیں گے ۔ اس دوڑ کے لیئے بیلوں کو خوب کھلایا جاتا ہے اور ان کو سال بھر مشق کرائی جاتی ہے ۔ پنجاب میں بیلوں کی یہ دوڑ جلسہ یا میلہ کہلاتی ہے ، جو کھیل تماشا کے ساتھ ساتھ بیلوں کو گاہکوں کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے ۔ جو گاہک کسی بیل کو پسند کر لیتے ہیں وہ بیل والے کے گھر پہنچ جاتے ہیں اور بیل کا سودا بعض دفعہ دس دس اور بیس بیس لاکھ روپے میں ہوتاہے ۔ کیا احمد کے لیئے ضروری ہے کہ وہ حج پر جانے سے پہلے اپنے اس مال ،جو کہ پالتو بیلوں کی شکل میں ہے ، کی تجارتی زکاة ادا کرے ؟ یہ بیل اس نے 30 سال سے رکھے ہوئے ہیں ، ان پر وہ گھر سے بھی خرچ کرتا ہے اور باہر بھی انہی چگاتا ہے لیکن زیادہ اپنے گھر سے خرچ کرتا ہے ۔ یہ بیل اس کی جمع پونجی کی طرح ہیں۔ پنجاب میں بیل رکھنا ایک منافع بخش تجارت ہے ۔ کیا ایسے بیل تجارتی سامان کی طرح ہیں کہ نہی؟ کتاب و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب نمبر: 600814
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:159-30T/SD=4/1442
صورت مسئولہ میں اگر آپ کے دوست احمد نے حتمی طور پر تجارت کی نیت سے بیل خریدے تھے ، یعنی اس کی نیت یہ تھی کہ بیلوں کو فروخت کرکے نفع کمانا ہے ، تو ان بیلوں کی مالیت پر زکات واجب ہوگی اور اگر احمد کی نیت بیل خریدتے وقت حتمی طور پر بیچنے کی نہیں تھی ؛ بلکہ اس کی نیت یہ تھی کہ اگر کبھی نفع زیادہ ملا تو فروخت کردیں گے ، ورنہ بیلوں کو دوڑ کے لیے استعمال کرتے رہیں گے (جیساکہ سوال سے بظاہر ایسا ہی معلوم ہوتا ہے ) تو ایسی صورت میں ان بیلوں پر زکات واجب نہیں ہوگی ۔(الدر المختارمع رد المحتار: ۱۹۳/۳، کتاب الزکاة، زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند