عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 59670
جواب نمبر: 59670
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 574-539/Sn=8/1436-U (۱)
ادھار کی رقم (مثلاً قرض یا مال تجارت کی قیمت) پر بھی زکاة واجب ہوتی رہتی ہے؛ البتہ زکاة کی ادائیگی اس وقت واجب ہوتی ہے جب رقم وصول ہوجائے، لہٰذا دو چار سال بعد جب ادھار کی رقم آپ کو وصول ہوجائے گی اس وقت گزشتہ تمام سالوں کی زکاة ادا کرنی پڑے گی، اگر ہرسال آپ ”ادھار رقم“ کی بھی زکاة ادا کرتے رہیں گے تو زکاة ادا ہوجائے گی، پھر آئندہ وصول ہونے پر گزشتہ سالوں کی زکاة ادا نہیں کرنی پڑے گی۔ والعم أن الدیون عند الإمام ثلاثة قويّ متوسّط وضعیف، فتجب زکاتہا إذا تم نصابًا وحال الحول لکن لا فورًا؛ بل عند قبض أربعین درہمًا من الدین القوي کقرض وبدل مال تجارة إلخ (درمختار، ۳/ ۲۳۶،زکریا) وفي الہندیة ولو کان الدین علی مقرّ ملی أو معسر تجب الزکاة لإمکان الوصول إلیہ ابتداءً وبواسطة التحصیل وکذا لو کان علی جاحد وعلیہ بینة (۱/۱۸۷، ط: زکریا) (۲) لگاسکتے ہیں، اس پیسے میں کوئی ”خبث“ نہیں ہے؛ لیکن سود پر قرض لینا گناہِ عظیم ہے، اس سے توبہ ضروری ہے، نیز کوشش کرکے جتنی جلدی ہوسکے لون چکتا کردیں ورنہ ایک ناجائز کام کے ساتھ ملوث رہنے کا گناہ ملتا رہے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند