• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 59422

    عنوان: کسی کمپنی کے شیئرز خریدنے پر زكات ہے یا نہیں؟

    سوال: میں جون 1991ء میں ایک کمپنی کے 100 شیر خریداتھا-اسکے بعد سے اب تک میرے پاس صرف شیر سرٹیفیکٹ کے اور کوئی اس سے فائدہ نہیں ہوا-البتہ اس کمپنی نے تین دفعہ بونس کا اعلان کیا اور اس طرح میرے پاس اب تقریباً 4000 شیر ہوگئے ہیں- مگر خاص بات یہ ہے کہ میرے پاس اس وقت نہ ہی شیر ہیں اور نہ ہی سرٹیفیکٹ مگر یہ شیر کمپنی کی آفس میں میرے نام جمع ہیں- کیا مجھے اس کی زکات ادا کرنی ہوگی یا پھر جس وقت یہ شیر میری تحویل میں لینے کہ بعد ادا کرنی پڑے گی- کیا جب سے میں خریدا یا پھر جس وقت میں اپنی تحویل میں لونگا اس وقت سے مجھے زکات ادا کرنی ہوگی- برائے مہربانی رہبری فرمائیں- جزاک اللہ خیر۔

    جواب نمبر: 59422

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 795-806/N=10/1436-U کسی کمپنی کے شیئرز خریدنے کا مطلب اس کمپنی میں اور اس کے کاروبار میں شراکت اور حصہ داری ہے؛ اس لیے جب آپ نے کسی کمپنی کے شیئرز خریدلیے تو آپ ان خریدے ہوئے شیئرز کے مالک اور اس کے ذریعہ کمپنی اور اس کے کاروبار میں شریک اور حصے دار ہوگئے، اس میں ملکیت کے لیے شیئرز پرقبضہ اور ان کا تحویل میں آنا ضروری نہیں، پس صورت مسئولہ میں اگر آپ نے کسی کمپنی کے شیئرز جائز طریقہ پر خریدے ہیں اور سارے شیئرز بیچنے کی نیت سے ہی خریدے ہیں تو بوقت ادائے زکاة کل شیئرز کی جو قیمت ہو اس کی زکاة دینی ہوگی، اور اگر آپ نے شیئرز بیچنے کی نیت سے نہیں خریدے ہیں؛ بلکہ انھیں مستقل طور پر اپنی ملکیت میں رکھنے کا ارادہ ہے تو اس صورت میں شیئرز کی صرف اس مقدار پر زکاة واجب ہوگی جو تجارت میں لگی ہوئی ہو اور کارخانہ کی مشینری اور عمارت وغیرہ کے شیئرز پر زکاة واجب نہ ہوگی؛ کیوں کہ وہ مال تجارت نہیں ہے، ویسے عام طور پر پہلی ہی شکل پائی جاتی ہے اور اگر آپ نے بھی اپنے سارے شیئرز بیچنے ہی کی نیت سے خریدے ہیں تو ادائے زکاة کے وقت آپ کے تقریباً چار ہزار شیئرز کی مارکیٹ میں جو قیمت ہو آپ اس کے حساب سے ان کی زکاة ادا کریں اور ادائے زکاة کے لیے تحویل وقبضہ میں آنے کا انتظار نہ کریں، البتہ آپ کے شیئرز کی مجموعی مالیت کا تنہا یا آپ کی ملکیت میں موجود سونا، چاندی، کرنسی یا کسی اور مال تجارت کے ساتھ مل کر بقدر نصاب ہونا اور مقدار نصاب پر سال کا مکمل ہوجانا وجوب زکاة کے لیے شرط ہے، اور اگر آپ ابھی صاحب نصاب نہیں ہیں یا صاحب نصاب ہونے کے بعد سال مکمل نہیں ہوا ہے تو آپ پر ابھی زکاة واجب نہیں ہے، الزکاة واجبة في عروض التجارة کائنة ما کانت إذا بلغت قیمتہا نصابًا من الورق والذہب کذا في الہدایة (فتاوی عالمگیري ۱:۱۷۹ مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) لیس في دور السکنی وثیاب البدن․․․ وسلاح الاستعمال زکاة لأنہا مشغولة بالحاجة الأصلیة ولیست بنامیة أیضًاوعلی ہذا کتب العلم لأہلہا وآلات المحترفین کما قلنا (فتح القدیر ۲:۱۱۹، ۱۲۰، مطبوعہ: ورشیدیہ کوئٹہ باکستان) وتعتبر القیمة یوم الوجوب وقالا: یوم الأداء، وفي السوائم یوم الأداء إجماعًا وہو الأصح (درمختار مع الشامي ۳: ۲۱۱ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) والخلاف في زکاة المال فتعتبر القیمة وقت الأداء في زکاة المال علی قولہما وہو الأظہر (غنیة ذوي الأحکام ۱: ۱۸۱ بحوالہ: البرہان)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند