• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 5794

    عنوان:

    عرض کہ درج ذیل سوالات کا قرآن و حدیث اور فقہ و فتاوی کی روشنی میں مدلل اور معقول حل عنایت فرماکر ممنون و مشکور فرمائینگے۔جزاکم اللہ ۱۔ایک آدمی (زید) نے ایک کڑور روپے کی پراپرٹی کرایہ پر دینے کی نیت سے خریدی اور کرایہ پر دیدی قیمت کے بیس لاکھ روپے ادا کر دئے جب کہ بقیہ اسی لاکھ روپے کئی سالوں میں قسطوار ادا کرنے ہیں واضح ہو کہ اس پراپرٹی کاکرایہ سالانہ دس لاکھ روپیہ آتا ہے جس میں سے دو لاکھ روپے نقد ادا کردہ بیس لاکھ کے مقابلہ میں بیٹھتا ہے جب کہ آٹھ لاکھ روپے واجب الادا قرض اسی لاکھ کے مقابلہ میں پڑتا ہے اس پراہرٹی پر حاصل شدہ کرایہ کی زکوة کی ادائیگی کے سلسلہ میں مقامی علماء کرام سے مسئلہ دریافت کرنے پر انہوں نے بتلایا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟

    سوال:

    عرض کہ درج ذیل سوالات کا قرآن و حدیث اور فقہ و فتاوی کی روشنی میں مدلل اور معقول حل عنایت فرماکر ممنون و مشکور فرمائینگے۔جزاکم اللہ ۱۔ایک آدمی (زید) نے ایک کڑور روپے کی پراپرٹی کرایہ پر دینے کی نیت سے خریدی اور کرایہ پر دیدی قیمت کے بیس لاکھ روپے ادا کر دئے جب کہ بقیہ اسی لاکھ روپے کئی سالوں میں قسطوار ادا کرنے ہیں واضح ہو کہ اس پراپرٹی کاکرایہ سالانہ دس لاکھ روپیہ آتا ہے جس میں سے دو لاکھ روپے نقد ادا کردہ بیس لاکھ کے مقابلہ میں بیٹھتا ہے جب کہ آٹھ لاکھ روپے واجب الادا قرض اسی لاکھ کے مقابلہ میں پڑتا ہے اس پراہرٹی پر حاصل شدہ کرایہ کی زکوة کی ادائیگی کے سلسلہ میں مقامی علماء کرام سے مسئلہ دریافت کرنے پر انہوں نے بتلایا کہ کرایہ میں سے اولاً ایک سال کی واجب الادا قسطیں وضع کرلی جائیں بعدہ اگر بقدر نصاب مال بچ جائے تو زکوة واجب ہوگی ورنہ نہیں، مگر اس پر اشکال یہ ہے کہ اس صورت میں پورا کرایہ سالانہ قسطوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتا ہے اور اس شخص پر کوئی زکوة واجب نہیں ہوتی اور ہمارے یہاں ارباب اموال قسطوار ادائیگی کی شرط پر قرض پر قرض لیتے چلے جاتے ہیں اور کرایہ پر دینے کی نیت سے پراپرٹیاں خرید کر کرایہ پر دیتے چلے جاتے ہیں اور حاصل شدہ کرایہ سے صرف قسطیں ہی ادا ہو پاتی ہے بلکہ بعض اوقات تو قسطوں کی ادائیگی میں کرایہ ناکافی ہونے پر جیب سے بھی پیسے نکالنے پڑتے ہیں یوں ان حضرات کی املاک بڑھتی جاتی ہے اور زکوة ان پر واجب نہیں ہوتی یہ میری سمجھ سے باہر ہے میرے خیال میں نقد ادا کردہ قیمت کے مقابلہ آنے والے کرایہ میں سے ٹکس کی رقم وضع کرنے کے بعد بقیہ پیسوں پر زکوة واجب ہونی چاہیے مثلاً سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق نقد ادا کردہ قیمت بیس لاکھ کے مقابلہ میں آنے والے دو لاکھ روپیوں پر ٹیکس وضع کرنے کے بعد زکوة واجب ہونی چاہیے امید کہ اس کا معقول حل پیش فرمائینگے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی مالدار مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو ایک بڑی معتد بہ رقم بطور قرض دیتا ہے اور قرضدار اس رقم پراپرٹی یعنی املاک بنیت تجارت خریدے اور قرض کی رقم اسے قسطوار کئی سالوں میں ادا کرنی ہے تو ایسی صورت میں مسئلہ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ قرضدار کو ایک سال کی قسطیں وضع کرنے کے بعد اس پراپرٹی کی قیمت پر زکوة ادا کرنی ہے اور قرض خواہ کو بھی قرض دی ہوئی رقم کی زکوة وصولی کے بعد گزشتہ سالوں کی بھی ادا کرنی ہے اس صورت میں ایک ہی پیسے پر دوہری زکوة لازم آتی ہے کیونکہ قرضدار کے پاس جو پراپرٹی ہے وہ اسی رقم کا عوض ہے لھذا گزارش ہے کہ اسکا تشفی بخش جواب مرحمت فرماکر ممنون فرمائیں۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص نے ایک کروڑ روپئے کا مال تجارت خریدا جسمیں سے پچاس لاکھ نقد ادا کر دئے اور پچاس لاکھ قسطوار ادا کرنے ہیں تو ایسی صورت میں زکوة کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہونا چاہئے؟ آیا اس طرح ادا کرے کہ جو قیمت نقد ادا کردی ہے اسکے مقابلہ میں آنے والے مال تجارت پر زکوة ادا کردی جائے اور جو قسطوار ادا کرنی باقی ہے اسکی زکوة واجب نہ ہوگی یا پھر کوئی اور صورت حال ہے برائے مہربانی واضح اور تشفی بخش رہنمائی فرماکر ممنون فرمائیں۔

    جواب نمبر: 5794

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1029=1232/ ب

     

    صورتِ مذکورہ میں جب پورا کرایہ سالانہ قسطوں کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتاہے اورکچھ نہیں بچتا ہے اور اوپر سے اسی لاکھ یا اس سے کچھ کم قرض بھی ہے تو مقروض پر شرعاً زکوة واجب نہیں۔ اگر کوئی شخص زکوة نہ دینے کے لیے ایسا کرتا ہے یعنی پراپرٹی پر ادھار پراپرٹی خریدتا جاتا ہے تو اللہ تعالی دلوں کا حال خوب اچھی طرح جانتا ہے وہ اس شخص کے حال کے مطابق سزا دے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند