عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 57668
جواب نمبر: 57668
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 181-181/Sd=4/1436-U (۱)
سونے کی زکات کا نصاب ساڑھے سات تولہ یعنی ستاسی گرام چار سو اسی ملی گرام ہے۔ (۲) صاحب نصاب پر زکات کی فرضیت کے لیے ایک سال کا گذرنا شرط ہے، نصاب ہرایک سال گذرنے کے بعد بلا تاخیر زکات نکالنا ضروری ہے، بغیر عذر کے زکات نکالنے میں تاخیر کرنا گناہ ہے، البتہ زکات فرض ہونے کے بعد آئندہ سال کی ہرمہینے زکات کی نیت سے پیشگی کچھ رقم نکالنا جائز ہے، زکات کی نیت سے جتنی رقم نکالی جائے گی، شرعاً وہ زکات میں محسوب ہوگی؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ سال پورا ہونے کے بعد یکبارگی زکات نکالی جائے۔ قال في الہندیة: ویجوز تعجیلُ الزکاة بعد ملک النصاب ولا یجوز قبلہ، وإنما یجوز التعجیل بثلاثة شروط: أحدہا أن یکون الحول منعقدًا علیہ وقت التعجیل والثاني أن یکون النصاب الذي أدی عند کاملاً في آخر الحول والثالث أن لا یفوت أصلہ فیما بین ذلک․ (الہندیة: ۱/۱۷۲) وقال الحصکفي: ولو عجل ذو نصاب زکاتہ لسنین أو لنصب صحَّ لوجود السبب․ قال ابن عابدین نقلاً عن البحر؛ لا یخفی أن الأفضل عدمُ التعجیل للاختلاف فیہ عند العلماء ولم أرہ منقولاً․ (الدر المختار مع رد المحتار: ۲/۲۹۳، باب زکاة الغنم، ط: دار الفکر بیروت) (۳) جس شخص پر سونے کی زکات فرض ہے اور وہ زکات اداء نہیں کرتا، تو عند اللہ وہ ماخوذ ہوگا، زکات فرض ہونے کے بعد نہ نکالنا بڑا گناہ ہے، احادیث میں اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ عن أبي ہیریرة رضي اللہ عنہ قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم، من آتاہ اللہ مالاً، فلم یوٴد زکاتہ، مثل لہ یوم القیامة شجاعاً أقرع، لہ زبیبتان یطوقہ یوم القامة، ثم یأخذ بلہزمتیہ، ثم یقول: أنا مالک أنا کنزک (البخاري: ۱/۱۸۸) (۴) اگر اس عورت پر زکات فرض تھی اور اس نے اپنی زندگی میں زکات ادا نہیں کی اور نہ ہی مرنے سے پہلے اس نے زکات ادا کرنے کی وصیت کی، تو شرعاً اس کے ورثاء پر اس کے ترکے میں سے زکات نکالنا ضروری نہیں ہے؛ البتہ اگر ورثاء بطور تبرع مرحوم کی طرف سے زکات نکال دیں، تو شرعاً اس کی زکات ادا ہوجائے گی۔ قال ابن عابدین نقلاً عن الجوہرة: إذا مات من علیہ زکاة أو فطرة - لم توٴخذ من ترکتہ عندنا إلا أن یتبرع ورثتہ بذلک وہم من أہل التبرع ولم یجیزوا علیہ وإن أوصی، تنفذ من الثلث․ (رد المحتار: ۲/۳۵۹، باب صدقة الفطر، ط: دار الفکر، بیروت)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند