عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 57367
جواب نمبر: 57367
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 284-231/D=3/1436-U (۱) اس مکان کی مالیت پر زکاة واجب نہیں ہے، البتہ اس سے بطور کرایہ حاصل ہونے والی آمدنی نصاب کا سال پورے ہونے کے وقت جس قدر موجود رہے گی اس پر زکاة واجب ہوگی۔ (۲) اس زمین ومکان کی مالیت پر زکاة واجب نہیں، البتہ کرایہ کی آمدنی کا وہی حکم ہے جو نمبر ایک میں لکھا گیا۔ (۳) اس مکان کی مالیت پر بھی زکاة واجب نہیں۔ نصاب کا سال پورے ہونے پر جس قدر نقد رقم، سونا چاندی، یا مال تجارت آپ کے پاس موجود ہو سب کی قیمت جوڑکر ان کا 2.5% (ڈھائی فیصد) زکاة میں ادا کردیں۔ زکاة اس زمین پر واجب ہوتی ہے جو مال تجارت کے طور پر آگے فروخت کرکے نفع حاصل کرنے کی غرض سے خریدی گئی ہو، لہٰذا جہاں زمین خریدتے وقت آگے اسے فروخت کرکے نفع حاصل کمانا مقصود نہ ہو اس پر زکاة واجب نہیں ہوگی، نمبر(۱) میں مکان خریدتے وقت ایسی کوئی نیت آپ کی نہیں تھی اس لیے زکاة واجب نہیں ہوئی، اگر نیت رہی ہو تو اسے واضح کریں۔ نمبر (۲) میں بھی یہی تفصیل ہے، پھر جب اس پر رہائش کے لیے مکان بنانے کا ارادہ ہے تووہ مال تجارت نہ ہوئی پس اس پر بھی زکاة واجب نہیں۔ نمبر (۳) وراثت یا ہبہ کے ذریعہ آپ کو حاصل ہوئی ایسی زمین پر زکاة واجب نہیں ہوتی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند