• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 55871

    عنوان: كیا نابالغ بچے كے مال پر زكاة ہے؟

    سوال: میری بیوی کا تین ہفتے پہلے انتقال ہوگیا ہے اس کے پاس کچھ زیور تھا جو اس کے انتقال کے بعد باہمی رضامندی سے اس کے بیٹے کی ملکیت میں دیا گیا ہے ، بیٹے کی عمر سات سال ہے۔ سوال یہ ہے کہ ؛ (۱) کیا اس زیورپر زکاة ہوگی ؟ یا بچے کے بالغ ہونے کے بعد زکاة واجب ہوگئی؟ (۲) کیا اس زیور کو بچے کی خالہ اور پھوپھی شادی وغیرہ میں نے پہن سکتی ہے جیسے میری بیوی کی زندگی میں بھی اسی طرح کرتی تھی۔

    جواب نمبر: 55871

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1-1/Sd=1/1436-U (۱) صورت مسئولہ میں اگر بیوی کے ورثاء کی باہمی رضامندی سے مذکورہ زیور بچہ کودیا گیا اورخود بچے نے یا اُس کی طرف سے اُس کے والد نے زیور پر قبضہ بھی کرلیا، توبچہ اس زیور کا مالک ہوگیا، بالغ ہونے سے پہلے پہلے اس زیور پر زکات واجب نہیں ہے، بچے کے بالغ ہونے کے بعد ہی زکات واجب ہوگی۔ (۲) باپ کے لیے نابالغ بچے کے مال کو عاریت پر دینا جائز نہیں، لہٰذا صورت مسئولہ میں باپ کے لیے نابالغ بچے کے زیور کوخالہ یا پھوپی وغیرہ کو شادی میں پہنے کے لیے دینا شرعاً جائز نہیں، خود خالہ اور پھوپی کا بچے کے زیور کو استعمال کرنا درست نہیں۔ قال الحصکفي: وشرط افتراضہا (الزکاة): عقل وبلوغ وإسلام - قال ابن عابدین: قولہ: عقل وبلوغ: فلا تجب علی مجنون وصبي (الدر المختار مع رد المحتار: ۳/۱۷۳، کتاب الزکاة، ط: زکریا، دیوبند) وقال الحصکفي: لیس للأب إعارة مال طفلہ لعدم البدل وکذا القاضي والوصي، قال ابن عابدین: قولہ: ”لیس للأب إعارة مال طفلہ“ ہذا ما علیہ العامة․ (الدر المختار مع رد المحتار: ۱۲/ ۵۴۳، کتاب العاریة، زکریا) ویصح قبضہ أيا لصبي للہبة․ (شرح الأشباہ والنظائر: ۳/۳۰، الفن الثالث، أحکام (الصبیان) إذا وہب شيء للصبي الممیز، تتم الہبةُ بقبضہ الموہوب إن کان لہ ولي․ (شرح المجلة لسلیم رستم باز، ص: ۴۶۸، رقم المادة: ۸۵۳)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند