عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 50014
جواب نمبر: 50014
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 299-273/H=3/1435-U زکاة کی ادائیگی کے لیے متعینہ آٹھ مصارف میں سے کسی مستحق زکاة کو مالکانہ طور پر قبضہ دلانا شرط ہے، بغیر مالکانہ قبضہ دلائے اگر مالِ زکاة انہی لوگوں کے فائدے کے لیے خرچ کیا گیا تو زکاة ادا نہ ہوگی، اسی جہ سے ائمہ اربعہ اس پر متفق ہیں کہ زکاة کی رقم کو مسجد یا مدرسے وغیرہ کی تعمیر یا ان کی دوسری ضروریات میں صرف کرنا جائز نہیں: یصرف إلی کلہم أو إلی بعضہم تملیکا لا إلی بناء مسجد وکفن میت وقضاء دینہ (تنویر الأبصار مع رد المحتار: ۳/ ۲۹۱، کتاب الزکاة باب المصرف) ٹرسٹ قائم کرنے کی صورت میں بھی مذکورہ شرط کا پایا جانا ضروری ہے، اس لیے اگر طلبہ میں کوئی مستحق زکاة نہ ہو جس سے تملیک کرائی جاسکے تو کسی غریب مستحق زکاة سے یہ معاملہ طے کرلیا جائے کہ وہ قرض لے کر مدرسے یا مسجد کی ضرورت کے لیے چندہ دیدے اور اس کو زکاة کا روپیہ باذن معطیین دے دیا جائے تاکہ قرض ادا کردے، یہ بھی تملیک ہی کی ایک شکل ہے جس کو واقعی ضرورت کی تکمیل کے لیے اپنانے کی گنجائش ہے: الدفع إلی من علیہ الدین أولی من الدفع إلی الفقیر (عالمگیری: ۱/۱۸۸، زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند