عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 46308
جواب نمبر: 46308
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 982-194/D=9/1434 (۱) بالغ ہونے کے بعد جو لڑکا یا لڑکی صاحب نصاب ہو یعنی 613 گرام چاندی یا ساڑھے ستاسی (87.5)گرام سونے کا مالک ہو اور اگر دونوں چیزیں اس مقدار سے کم ہوں تو ان دونوں کی قیمت 613 گرام چاندی کے برابر ہوجائے یا نقد روپے یا تجارت کا سامان 613 گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہو اور اگر سب چیز تھوڑی تھوڑی ہوں تو ان سب کی قیمت ملاکر 613 گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہوجائے تو اس پر پورا ایک سال گذرجانے پر (2.5%) ڈھائی فیصد زکاة ادا کرنا واجب ہوتا ہے۔ (۲) جی ہاں عمر سے اس کا تعلق ہے چنانچہ نابالغ بچہ پر زکاة واجب نہیں ہوتی۔ (۳) جی ہاں جیسا کہ اوپر لکھا گیا سال گذرجانے کے بعد ہی ادائیگی فرض ہوتی ہے۔ (۴) سال کے شروع اور آخر میں صاحب نصاب ہونا کافی ہے درمیان سال میں نصاب سے کم بھی ہوجائے تو بھی سال پورا ہونے پر جس قدر سونا چاندی نقد روپیے یا تجارت کا سامان موجود ہوگا اسی کی زکاة نکالنا واجب ہوگا۔ (۵) جی ہاں قرض دی ہوئی رقم کی بھی زکاة نکالنی ہوگی۔ (۶) اپنے ہاتھ سے بھی دے سکتے ہیں اور جس ادارہ یا انجمن پر آپ کو اعتماد ہو اور یہ اطمینان ہو کہ وہ صحیح مصرف میں خرچ کریں گے ان کے ذریعہ بھی ادا کرسکتے ہیں۔ (۷) مدرسہ میں جو طلبہ غریب ہوتے ہیں وہ مستحق زکاة ہیں، نیز چونکہ یہ علم دین کے حاصل کرنے میں مشغول ہیں اس لیے انھیں دینے میں زیادہ ثواب ملے گا، جیسے کہ غریب رشتہ دار کو دینے میں یا نیک دیندار مسلمان کو دینے میں بھی زیادہ ثواب ملتا ہے۔ (۸) سوچ کر پچھلے سالوں کی زکاة اندازہ سے حساب لگاکر نکالدے احتیاطاً کچھ زیادہ نکال دے۔ (۹) قرآن وحدیث میں ایسے شخص پر سخت وعیدیں آئی ہیں مثلاً قیامت میں اس کا مال ودولت اژدہا سانپ بن جائے گا اور ہرطرف سے اسے ڈسے گا اور کہے گا کہ میں تمھارا مال ہوں میں تمھارا خزانہ ہوں۔ یا اس کے مال کو آگ کی تختیاں بناکر اس سے اس کے جسم کو داغا جائے گا۔ (۱۰) اگر اس کی بات پر اطمینان ہو کہ یہ جھوٹ نہیں کہہ رہا ہے تو اسے زکاة دے سکتے ہیں، خواہ مخواہ شبہ نہ کریں اور اگر قرائن سے یقین ہو کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے تو پھر نہ دینا بہتر ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند