• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 41332

    عنوان: زکاة مال پر اس وقت واجب ہوتی ہے

    سوال: (۱) میرے پاس کچھ نقد ، بینک بیلنس اور کچھ رقم اسٹاک مارکیٹ میں ہے(اس پر ابھی ایک سال سے زیادہ مدت نہیں ہے) (۲) اس کے علاوہ کچھ تیار مال ہیں جسے ہمارے گاہک نے قبول نہیں کیا، یہ ہماری فیکٹری میں رکھے ہیں تو کیا ہمیں اس کی بھی زکاة دینا ہوگی؟ہمارے پاس کوئی گاہک نہیں ہے جو ان سامانوں کو خریدے، اس لیے یہ میرے لیے مثل ردی مال ہیں۔ ممکن ہے کہ اگر میں اسے اپنے پاس رکھوں تو سوفیصد تو نہیں بلکہ پچاس یا ساٹھ فیصد مال بک جائے اور بقیہ مال دوسرے آرڈر میں استعمال ہوجائے تو مجھے اس پر کتنی زکاة دینا ہوگی؟براہ کرم، تھوڑی تفصیل کے ساتھ میرے پاس بھیجیں۔ (۳) فرض کریں کہ میں تقریبا ً100000 لگا کر بزنس کررہا ہوں اور دوسرے سال جب میں زکاة کا حساب لگاتاہوں تو 150000 امریکی ڈالر ہوتے ہیں تو مجھے کونسی رقم پر زکاة دینا ہوگی؟کیامیں اضافی رقم 50000 کی زکاة دو ں؟والسلام

    جواب نمبر: 41332

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1437-534/B=10/1433 (۱) (۲) زکاة مال پر اس وقت واجب ہوتی ہے، جب آدمی صاحب نصاب ہوجائے یعنی ساڑھے باون تولہ (تقریباً 613 گرام) چاندی کی مالیت کے بقدر روپے سامان تجارت اس کی ملک میں آجائیں اور اس پر سال گذرجائے اس لیے آپ کے پاس نقد بینک بیلنس آرڈر کا مال جو تیار ہے اس کی قیمت جوڑکر تمام کی زکاة ادا کردیں۔ (۳) زکاة کی ادائیگی میں سال کے اخیر وقت کی مالیت کا اعتبار ہوتا ہے، سال کے اخیر میں اگر ڈیڑھ لاکھ ڈالر آپ کے پاس ہیں تو مکمل ڈیڑھ لاکھ ڈالر کی زکاة نکالنی ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند