عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 39120
جواب نمبر: 3912001-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1141-955/B=6/1433 جی ہاں مذکورہ رشتہ داروں کو زکاة کی رقم دینا جائز ہے بشرطیکہ یہ غریب ہوں، ان رشتہ داروں کو زکاة دینے سے دوگنا ثواب ملتا ہے، ایک تو زکاة دینے کا ثواب ملتا ہے دوسرا رشتہ دار کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ البتہ اسے زکاة کہہ کر نہ دے بلکہ ہدیہ کہہ کر دیدے تاکہ انھیں ذلت اور شرمندگی نہ ہو۔ (۲) صدقہ کرنے سے بلائیں اور مصیبتیں دور ہوتی ہیں، یہ مہفوم تو حدیث میں آتا ہے لیکن تقدیر ختم ہوجاتی ہے یہ مفہوم ہماری نظر سے نہیں گذرا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میرا
سوال ایک پلاٹ کی زکوة سے متعلق ہے۔ چند سالوں پہلے مجھ کو اپنا مکان تعمیر کرنا
پڑا اور میرے پاس مثلاً سو لاکھ روپئے تھے۔ میں نے ابتدائی تعمیر کے لیے پچاس لاکھ
روپئے محفوظ رکھے، اور تیس لاکھ اور بیس لاکھ کے مزید دو پلاٹ خریدے۔ اس وقت ان دو
پلاٹوں کے متعلق میری نیت حسب ذیل تھی: (۱)میں بڑے پلاٹ کو اپنے بچوں کے لیے
محفوظ رکھوں گا اور اس کو فروخت نہیں کروں گا۔ (۲)اور میں چھوٹے پلاٹ نمبر
دو کوچند مہینوں میں اپنے مکان کے تعمیراتی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے فروخت
کردوں گا ۔اس پیسہ کو بینک میں رکھنے کے بجائے میں نے پلاٹ نمبر دو اس لیے خریدا
کہ اگلے چند مہینوں میں پلاٹ نمبر دو اچھی قیمت پر فروخت ہوجائے گااور مجھ کو اس
پیسہ پر کچھ حلال منافع حاصل ہوجائے گا۔تاہم بعد میں ایسا ہوا کہ جب مجھ کواپنے
مکان کی تعمیر کو مکمل کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوئی تو میں نے پلاٹ نمبر دو کو
فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن ....
جناب میں جرمنی پڑھنے آیا ہوں (پی ایچ ڈی) کرنے اور مجھے گورنمنٹ سے وظیفہ مل رہا ہے یہ وظیفہ بینک میں جمع ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان پیسوں پر زکوة فرض ہے جب کہ بینک میں جمع شدہ رقم ساڑھے باون تولہ چاندی سے زیادہ ہے؟ برائے کرم جواب جلد عنایت فرماویں کیوں کہ سال پورا ہونے والا ہے یا شاید کہ پورا ہوچکاہے۔
2168 مناظر